مندرجہ بالا کیس
میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جناب ارباب محمد طاہر، نے دفعہ 497(2) ضابطہ فوجداری اور دفعہ 489-ایف تعزیرات پاکستان کے تحت ضمانت کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
کیس کے حقائق:
1. ملزم نے پہلے ضمانت کی درخواست دی تھی جو عدالتِ عالیہ نے میرٹ پر خارج کر دی تھی اور ٹرائل کورٹ کو ایک ماہ کے اندر مقدمہ مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی۔
2. مقررہ مدت میں مقدمہ مکمل نہیں ہوا، جس کی بناء پر ملزم نے دوسری ضمانت کی درخواست دی۔
عدالتی مشاہدات:
عدالت نے واضح کیا کہ مقدمہ مقررہ مدت میں مکمل کرنے کی ہدایات انتظامی نوعیت کی ہوتی ہیں، اور ان پر عمل نہ ہونے کی صورت میں ضمانت کا حق خود بخود پیدا نہیں ہوتا۔
ضمانت کا حق صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قید کی مدت "حیرت انگیز، غیر معقول یا طویل" ہو، جو کہ اس کیس میں نہیں تھی۔
عدالت نے "دیر سے ٹرائل" کے جواز کو "نیا جواز" ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کی نوعیت شاکنگ یا غیر معمولی نہیں تھی۔
فیصلہ:
عدالت نے درخواست کو مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ موجودہ صورتحال میں ضمانت کا جواز موجود نہیں۔
حوالہ جات:
2021 SCMR 822
2011 SCMR 870
PLD 2016 SC 11
2018 MLD 1975
وکیل:
محمد شہزاد صدیق (درخواست گزار کے لیے)
حماد سعید (مدعا علیہ کے لیے)
یہ فیصلہ ضمانت کے قوانین اور دیر سے ٹرائل کی وجوہات کے قانونی دائرہ کار کو سمجھنے میں اہم رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ مقدمہ مقررہ مدت میں مکمل کرنے کی ہدایات انتظامی نوعیت کی ہوتی ہیں، اور ان پر عمل نہ ہونے کی صورت میں ضمانت کا حق خود بخود پیدا نہیں ہوتا۔
ضمانت کا حق صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب قید کی مدت "حیرت انگیز، غیر معقول یا طویل" ہو، جو کہ اس کیس میں نہیں تھی۔
عدالت نے "دیر سے ٹرائل" کے جواز کو "نیا جواز" ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کی نوعیت شاکنگ یا غیر معمولی نہیں تھی۔
ایک جملہ میں
No comments:
Post a Comment