Posts

Showing posts from July 29, 2024

Death penalty converted into life imprisonment.

Image
Death penalty converted into life imprisonment. لاہور ہائی کورٹ نے عمران اللہ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر کیا: 1. **شواہد کی کمی**: عدالت نے دیکھا کہ قتل کے دوران صرف ایک ہی گولی چلائی گئی اور مجرمانہ اسلحہ کی برآمدگی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، جس سے سزائے موت کا جواز کمزور ہو گیا۔ 2. **مجرمانہ کارروائی کی نوعیت**: عدالت نے غور کیا کہ صرف ایک فائرنگ کی گئی تھی، جسے سزائے موت کے بجائے عمر قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، کیونکہ سزائے موت عموماً انتہائی سنگین معاملات میں دی جاتی ہے۔ 3. **معاملے کی تفصیلات**: عدالت نے کیس کی تمام تفصیلات اور ثبوت کا بغور جائزہ لیا اور پایا کہ اس میں سزا کی نوعیت میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔  4. **مجرم کی حیثیت اور سزا کی نوعیت**: عدالت نے مختلف حالات اور شواہد کے پیش نظر، سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا، جبکہ معاوضہ اور دیگر سزائیں برقرار رکھی گئیں۔  یہ فیصلے عدالت نے انصاف کے تقاضوں اور موجودہ شواہد کی بنیاد پر کیے تاکہ سزا کی نوعیت کو مجرمانہ کارروائی کی سنگینی کے مطابق بنایا جا سکے۔ لاہور ہائی کورٹ، را

Widow right in inheritance property after 1963.

Image
Widow right in inheritance property after 1963.  قانونی مقدمے کے بارے میں ہے جس میں درخواست گزاروں نے 18 فروری 1986 کو ایک جائیداد کی منتقلی کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ استدلال یہ ہے کہ یہ مقدمہ وقت کی مدت گزر جانے کے بعد دائر کیا گیا ہے، یعنی یہ مقدمہ وقت کی حد سے باہر ہے۔ تاہم، جواب میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار، جو کہ collateral رشتہ دار ہیں، اسلامی قانون (شریعت) کے تحت اپنے حصے کے مالک بن چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی جائیداد میں حقوق اور ملکیت قانونی طور پر تسلیم شدہ ہیں، اور اس بنیاد پر ان کا مقدمہ وقت کی مدت گزرنے کے باوجود قابل قبول ہو سکتا ہے۔ مختصراً، اہم نکات یہ ہیں: 1. درخواست گزاروں کا جائیداد پر حق اسلامی قانون کے مطابق تسلیم شدہ ہے۔ 2. مقدمہ وقت کی مدت سے باہر ہونے کے باوجود جائز ہو سکتا ہے اگر درخواست گزاروں کا ملکیت اور حق قانونی طور پر ثابت شدہ ہو۔ اس معاملے میں مزید تفصیل اور قانونی مشورے کے لیے کسی وکیل سے رجوع کرنا بہتر ہوگا۔ 1. **محدود ملکیت کا خاتمہ:** "فاضل بیگم کی محدود ملکیت 1963 میں ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد وہ صرف ایک آٹھویں حصہ کی مالک تھیں، اور با