Posts

Showing posts from September 18, 2024

Motive in 302 | High Court upheld punishment even motive was not proved.

Image
Motive in 302 | High Court upheld punishment even motive was not proved. عدالت نے ملزم کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ شواہد، بشمول فوری ایف آئی آر، عینی گواہان کی گواہی، اور میڈیکل رپورٹ، ملزم کی مجرمانہ کارروائی کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، اور جرم کی محرک کے بغیر بھی اس کی سزا کو برقرار رکھا۔ یہ مقدمہ لاہور میں، جسٹس انوار الحق پنن کی عدالت میں زیر سماعت تھا، جس میں اپیل نمبر 14637 اور کرمنل ریوژن نمبر 16786 کی سماعت 10 مئی 2024 کو ہوئی۔ مقدمہ میں ملزم لیاقت علی عرف جاجی اور دوسرے کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کیس کے اہم نکات: 1. سزا اور مقدمہ: ملزم لیاقت علی عرف جاجی کو 17 فروری 2021 کو سزائے عمر قید اور 2 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی گئی، جو کہ مقتول کے قانونی وارثین کو ادا کرنا تھا۔ 2. فرد جرم: مقدمہ کے مطابق، ملزم نے 13 مئی 2014 کو مقتول محمد رضوان کو پستول سے گولیاں مار کر قتل کیا۔ وقوعہ کے وقت ملزم نے مقتول کو گولی ماری اور جائے وقوعہ سے فرار ہو گیا۔ 3. شواہد: وقوعہ کی رپورٹ فوراً پولیس کو دی گئی، اور گواہان کی عینی شہادتیں ملزم کے خلاف مضبوط ت

302 punishment was upheld by Sindh High court despite there was difference in time of occurrence.

Image
302 punishment was upheld by Sindh High court despite there was difference in time of occurrence. یہ کیس اکبر شاہ اور دیگر بمقابلہ ریاست کا ہے، جس میں سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے ایک قتل اور زخمی کرنے کے واقعے پر اپیل کا فیصلہ سنایا۔ اس مقدمے میں فریقین کے درمیان زمین کا تنازعہ تھا۔ واقعہ یوں پیش آیا کہ شکایت کنندہ اور ان کے بھائی ایک متنازعہ پلاٹ میں داخل ہوئے، جس پر مخالف فریق نے فائرنگ کی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں شکایت کنندہ کا بھائی مارا گیا اور ان کی والدہ زخمی ہوئیں۔ ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے فائرنگ کی اور اس دوران ان کے اپنے دو ساتھی بھی زخمی ہو گئے۔ عدالت نے گواہوں کی شہادتوں کو اہمیت دی۔ شکایت کنندہ، زخمی اور دیگر گواہوں نے عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے ملزمان کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا اور ان کے پاس موجود ہتھیاروں کی نشاندہی کی۔ ان گواہوں کی شہادت کو مکمل اور قابلِ اعتبار مانا گیا، کیونکہ ان کی باتوں میں کوئی بڑی تضاد یا جھوٹ نہیں پایا گیا، چاہے انہیں کتنی ہی سخت جرح کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اہم نکتہ وقت کے حوالے سے اٹھایا گیا تھا۔ ملزمان کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ واق

9(d) life imprisonment case | punishment upheld by peshawar High court9(d) life imprisonment case | punishment upheld by peshawar High court

Image
9(d) life imprisonment  case | punishment upheld by peshawar High court یہ مقدمہ قاسم خان کے خلاف ہے، جو خیبر پختونخوا کنٹرول آف نارکوٹک سبسٹینسز ایکٹ 2019 کے سیکشن 9(d) کے تحت چرس کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔ کیس کی تفصیلات کے مطابق، 18 جنوری 2020 کو پولیس کو مخبری ملی کہ ایک سوزوکی وین میں چرس اسمگل کی جا رہی ہے۔ پولیس نے ایک ناکہ بندی کر کے گاڑی کو روکا، جسے قاسم خان چلا رہا تھا۔ تلاشی کے دوران گاڑی کی خفیہ خانوں سے 15 کلو چرس برآمد ہوئی۔ پولیس نے قاسم خان کو گرفتار کیا اور چرس کو ضبط کر لیا۔ مقدمے میں مختلف گواہان نے یہ گواہی دی کہ چرس قاسم خان کی گاڑی سے برآمد ہوئی تھی اور یہ گواہیاں عدالت میں مضبوط ثابت ہوئیں۔ قاسم خان کے وکیل نے دلیل دی کہ گرفتاری کرنے والا افسر اسسٹنٹ سب انسپکٹر (ASI) تھا، جو قانون کے مطابق اس قسم کی کارروائی کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ قانون کے مطابق یہ کارروائی صرف سب انسپکٹر یا اس سے اوپر کے افسر کر سکتے ہیں۔ لیکن عدالت نے یہ دلیل مسترد کر دی اور کہا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ کارروائی کرنے والا افسر مطلوبہ رینک کا نہیں تھا، لیکن اس سے مقدمے کی قان