یہ کیس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے حقوق کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے، خاص طور پر جب حکومت کی جانب سے ان کے مالی فوائد میں کمی کی کوشش کی جائے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے:
پس منظر
خیبر پختونخوا کی حکومت نے سول سیکرٹریٹ کے اندر موجود سولیسٹر آفس کے ملازمین کو دو اہم الاؤنسز—خصوصی الاؤنس اور یوٹیلٹی الاؤنس—کی ادائیگی بند کر دی۔ حکومت کا موقف تھا کہ یہ ملازمین سول سیکرٹریٹ کا حصہ نہیں ہیں، اس لیے وہ ان الاؤنسز کے حقدار نہیں ہیں۔
تنازعہ
سولیسٹر آفس کے ملازمین نے اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ انہوں نے دلیل دی کہ وہ اسی عمارت میں کام کرتے ہیں جہاں دیگر ملازمین کو یہ الاؤنسز ملتے ہیں، لہذا ان کے ساتھ بھی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت کا فیصلہ
ہائی کورٹ نے اس معاملے کی سماعت کی اور یہ فیصلہ کیا کہ حکومت کا یہ فیصلہ غیر معقول ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگرچہ سولیسٹر آفس کے ملازمین کا تکنیکی طور پر الگ ڈھانچہ ہے، مگر وہ سول سیکرٹریٹ کی عمارت میں کام کرتے ہیں، اس لیے انہیں بھی وہی فوائد ملنے چاہئیں جو دوسرے ملازمین کو مل رہے ہیں۔ عدالت نے اس بات کو اہمیت دی کہ قانون کے سامنے سب کی برابری ہونی چاہیے، اور حکومت کا امتیازی سلوک خلاف قانون ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، مگر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ حکومت کے پاس کوئی مؤثر دلیل نہیں تھی جس سے یہ ثابت ہوتا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ غلط تھا۔
نتیجہ
اس کیس نے یہ ظاہر کیا کہ سرکاری ملازمین کے حقوق کی حفاظت اہم ہے اور اگر حکومت کسی خاص گروپ کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے تو وہ قانونی چیلنج کا سامنا کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف متاثرہ ملازمین کے لیے خوش آئند تھا بلکہ دیگر سرکاری ملازمین کے حقوق کی بھی حفاظت کرتا ہے۔
یہ کہانی اس بات کی مثال ہے کہ عدلیہ کی حیثیت کس طرح قانون کی حکمرانی اور انصاف کی ضمانت دیتی ہے۔
No comments:
Post a Comment