قانونی دنیا میں اکثر ایسے معاملات پیش آتے ہیں جہاں فیصلے کے باوجود عمل درآمد میں تاخیر ہو جاتی ہے، اور اس کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا ایسی تاخیر کے باوجود درخواست دائر کرنا ممکن ہے؟ 2025 CLC 344 میں سندھ ہائی کورٹ نے اسی سوال کا جواب دیا اور اجرا کی درخواستوں پر اہم فیصلہ سنایا۔
مقدمہ کی تفصیلات:
مقدمہ 22 دسمبر 1999 کو فیصلہ ہوا، اور ڈگری جاری کی گئی۔ لیکن اجرا کی درخواست پہلی بار 26 اپریل 2002 کو دائر کی گئی، جسے عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا۔
مقدمے کے فریق نے بعد میں اجرا کی دوبارہ درخواست دائر کی، تاہم اس پر اعتراض یہ تھا کہ حد بندی ایکٹ 1908 کے مطابق درخواست دائر کرنے کی مدت 3 سال تھی، اور چونکہ پہلے ہی 6 سال گزر چکے تھے، اس لیے درخواست کو خارج کر دینا چاہیے۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ:
عدالت نے اس اعتراض کا جائزہ لیا اور کہا:
"اگر کسی فیصلے پر اپیل دائر کی جائے اور اسٹے آرڈر (حکم امتناعی) جاری ہو، تو اس دوران کی مدت کو حد بندی کے دوران میں شمار نہیں کیا جاتا۔"
عدالت نے مزید کہا کہ چونکہ اس کیس میں اسٹے آرڈر جاری ہوا تھا، اس لیے وقت کی گنتی رک گئی تھی اور دوبارہ درخواست دینا قانونی طور پر جائز تھا۔
لہٰذا، عدالت نے اجرا کی درخواست کو وقت کے اندر قرار دیتے ہوئے درخواست بحال کر دی۔
قانونی نکات:
1. اسٹے آرڈر کی اہمیت:
جب کوئی فیصلہ چیلنج کیا جائے اور اسٹے آرڈر جاری ہو، تو اس دوران کی مدت کو حد بندی کی مدت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹے کے دوران جو وقت گزرتا ہے، وہ قانونی طور پر متوقف رہتا ہے، اور بعد میں درخواست دائر کرنا جائز ہوتا ہے۔
2. عملی اثرات:
اس فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقت کی حدود کو عدالت معمولی حالات میں نرمی سے دیکھ سکتی ہے۔ اگر اسٹے آرڈر یا اپیل کی وجہ سے عمل درآمد میں تاخیر ہو، تو فریقین کے لیے دوبارہ درخواست دینا ایک قانونی حق ہوتا ہے۔
نتیجہ:
یہ فیصلہ ان افراد کے لیے اہم ہے جو عدالتی فیصلے کے باوجود اجرا یا عمل درآمد میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ اسٹے آرڈر اور اپیل کی موجودگی میں وقت کی حد میں نرمی دی جا سکتی ہے، اور اس سے دوبارہ درخواست دائر کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment