ذیل میں 2025 CLC 215 سندھ کے فیصلے پر مبنی ایک سادہ، معلوماتی اور قانونی شعور بیدار کرنے والا آرٹیکل پیش کیا جا رہا ہے:
فوٹو کاپیاں بطور ثبوت؟ ایک قانونی نظر — 2025 CLC 215 سندھ کا جائزہ
قانونی معاملات میں دستاویزات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پر جب بات جائیداد کی ملکیت کے دعوے کی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوٹو کاپی (فوٹو سٹیٹ) پر ملکیت ثابت کی جا سکتی ہے؟
اسی سوال کا جواب ہمیں سندھ ہائی کورٹ کے ایک اہم فیصلے 2025 CLC 215 سے ملتا ہے۔
پس منظر:
ایک شخص نے دعویٰ دائر کیا کہ وہ ایک مخصوص پلاٹ کا مالک ہے۔ ثبوت کے طور پر اس نے صرف فوٹو سٹیٹ کاپیاں عدالت کے سامنے پیش کیں۔
اصل دستاویزات نہ پیش کی گئیں اور نہ ہی عدالت کو بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں یا کیوں غائب ہیں۔
عدالت کا مؤقف:
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا:
- "جب تک اصل کاغذات کی تباہی یا عدم موجودگی کا کوئی واضح ثبوت پیش نہ کیا جائے، فوٹو کاپیاں بطور ثبوت قابلِ قبول نہیں ہوتیں۔"
- صرف فوٹو کاپیاں دکھانے سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ اصلی ہیں یا جعلی۔
اہم مشاہدہ:
اس کے باوجود عدالت نے یہ بھی کہا کہ:
- "اگر کوئی تکنیکی خامی ہو، تو صرف اس بنیاد پر مقدمہ خارج نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر جب معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہو اور اسے آسانی سے درست کیا جا سکے۔"
فیصلہ:
- عدالت نے مقدمہ خارج کرنے کے بجائے سکینڈ اپیل منظور کی اور کیس کو ریمانڈ (دوبارہ سماعت کے لیے واپس) کر دیا تاکہ معاملہ مکمل طور پر سنا جا سکے۔
قانونی سیکھ:
- فوٹو کاپیاں صرف تبھی قابلِ قبول ہوتی ہیں جب اصل نہ ہونے کا معقول سبب موجود ہو۔
- عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو مقدم رکھتی ہیں، اور ہر معاملے میں صرف کاغذی تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ نہیں کرتیں۔
اگر آپ جائیداد سے متعلق کسی قانونی تنازع میں ہیں تو یاد رکھیں:
اصل دستاویزات بہت قیمتی ہوتی ہیں — ان کا سنبھال کر رکھنا آپ کی قانونی پوزیشن مضبوط بناتا ۔
No comments:
Post a Comment