مطلقہ بیٹی کی سرکاری ملازمت کا حق: ایک قانونی جائزہ
پاکستان میں سرکاری ملازمین کے ورثاء کو ملازمت فراہم کرنے کے قوانین میں اکثر ابہام پایا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے۔ ایک اہم عدالتی فیصلہ PLJ 2023 Lahore (Note) 97 میں آیا، جس میں لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے مطلقہ بیٹی کے سرکاری ملازمت کے حق کو تسلیم کیا اور اس حوالے سے ایک اہم اصول وضع کیا۔
کیس کا پس منظر
مست. نادیہ حمید کے والد سرکاری ملازم تھے، جن کے انتقال کے بعد انہوں نے پنجاب سول سرونٹس (اپوائنٹمنٹ، کنڈیشنز آف سروس) رولز 1974 کے سیکشن 17-A کے تحت ملازمت کی درخواست دی۔ لیکن ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، وہاڑی نے ان کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ شادی شدہ بیٹی کو والد کی وفات کے بعد ملازمت کا حق نہیں مل سکتا۔
عدالتی کارروائی اور فیصلہ
نادیہ حمید نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ میں چیلنج کیا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ متعلقہ قانون میں شادی شدہ یا مطلقہ بیٹی کی تقرری پر کوئی پابندی نہیں۔ جب عدالت نے سرکاری وکیل اور ڈپٹی کمشنر آفس کے نمائندے سے مؤقف طلب کیا تو انہوں نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔
لہٰذا، عدالت نے اپیل منظور کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور کیس کو دوبارہ فیصلے کے لیے ڈپٹی کمشنر وہاڑی کو بھیج دیا، تاکہ وہ فل بینچ کے فیصلے (Mst. Ubaida Manzoor vs. Govt. of Punjab - 2012 PLC (CS) 101) کے مطابق فیصلہ کریں۔
قانونی اہمیت اور اثرات
یہ فیصلہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ:
- شادی شدہ یا مطلقہ بیٹی کو سرکاری ملازمت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ قانون میں واضح ممانعت نہ ہو۔
- سیکشن 17-A کے تحت دیے گئے حقوق کا اطلاق مساوی طور پر ہونا چاہیے، تاکہ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔
- عدالتوں کا یہ مؤقف قابل ستائش ہے کہ وہ قوانین کی درست تشریح کر کے مستحق افراد کو ان کا حق دلوا رہی ہیں۔
نتیجہ
یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف مطلقہ یا شادی شدہ بیٹیوں کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ سرکاری اداروں کے لیے بھی ایک راہنما اصول ہے کہ وہ فیصلے کرتے وقت امتیازی رویہ نہ اپنائیں۔ اس فیصلے کی روشنی میں متاثرہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کریں اور اپنے کیس کو مؤثر طریقے سے پیش کریں۔
No comments:
Post a Comment