Translate

3/26/2025

"Does Every Acquitted Person Have the Right to Compensation?"





کیا ہر بری ہونے والا ہرجانے کا حق رکھتا ہے؟

فوجداری مقدمات میں بریت کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ مقدمہ بلاجواز تھا۔ بعض اوقات بریت سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کسی شخص پر بے بنیاد مقدمہ چلایا گیا، لیکن قانون میں یہ اصول تسلیم شدہ نہیں کہ ہر بری ہونے والا ہرجانے کا حق دار ہو۔

قانونی نکتہ نظر

لاہور ہائی کورٹ نے مقدمہ Tariq Mehmood Vs Tahir Farooq (PLJ 2025 Lahore 346) میں واضح کیا کہ بریت کا مطلب ہر صورت میں بدنیتی پر مبنی مقدمہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک قابلِ تردید مفروضہ ہے، یعنی شواہد سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مقدمہ درست نیت سے دائر کیا گیا تھا۔ اگر قانون یہ اصول اپنا لے کہ ہر ناکام فوجداری مقدمے کے بعد ہرجانہ دیا جائے، تو اس سے قانونی نظام پر منفی اثر پڑے گا اور ہر بری ہونے والا شخص از خود ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دے گا، جو انصاف کے اصولوں کے خلاف ہوگا۔

بریت کی نوعیت اہم کیوں؟

ہر مقدمے میں بریت کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں، جیسے:

1. شک کا فائدہ ملنا – اگر عدالت کو مکمل یقین نہ ہو کہ ملزم مجرم ہے، تو اسے بری کر دیا جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی تھا۔


2. گواہوں کی عدم دستیابی – بعض اوقات مقدمہ درست ہوتا ہے لیکن گواہ یا شواہد دستیاب نہ ہونے کے باعث فیصلہ ملزم کے حق میں آتا ہے۔


3. ثبوت ناکافی ہونا – اگر پراسیکیوشن ملزم کے خلاف جرم ثابت نہ کر سکے، تو بریت ہو جاتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مقدمہ غیر ضروری تھا۔



ہرجانے کا حق کب بنتا ہے؟

ہرجانے کے لیے ضروری ہے کہ مدعی ثابت کرے کہ:

مقدمہ بدنیتی پر مبنی تھا، یعنی صرف کسی کو ہراساں یا نقصان پہنچانے کے لیے دائر کیا گیا۔

کوئی معقول بنیاد نہیں تھی، یعنی مقدمہ سراسر جھوٹے الزامات پر مبنی تھا۔

ملزم کو جھوٹے مقدمے کی وجہ سے ذہنی، مالی یا سماجی نقصان اٹھانا پڑا۔


اگر یہ شرائط پوری ہوں تو ہرجانے کا دعویٰ قابلِ سماعت ہو سکتا ہے، ورنہ محض بریت کی بنیاد پر ہرجانہ نہیں دیا جا سکتا۔

نتیجہ

قانون انصاف اور توازن کا تقاضا کرتا ہے۔ ہر بری ہونے والا ہرجانے کا حق نہیں رکھتا، جب تک وہ یہ ثابت نہ کرے کہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ عدالتوں کو ہر کیس میں بریت کی نوعیت کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ جھوٹے مقدمات کی حوصلہ شکنی ہو لیکن جائز قانونی کارروائی کو بھی غیر ضروری دباؤ کا شکار نہ بنایا جائے۔


PLJ 2025 Lahore 346
No doubt it is true that the acquittal of a person in a criminal case sometimes gives presumption that there was no reasonable cause for his prosecution, but this presumption is rebuttable and there cannot be any universally accepted phenomenon that in case the criminal prosecution fails, then the accused would be automatically entitled for recovery of damages as otherwise in all those cases where the prosecution fails, it would give rise to damages in favour of an accused. Therefore, the nature of acquittal has to be kept in view as well.
R.F.A. 80927/22
Tariq Mehmood Vs Tahir Farooq



For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

No comments:

Post a Comment

Featured Post

Court marriage karne ka tareeka | court marriage process in Pakistan.

  What is the Court marriage meaning Court marriage typically refers to a legal union between two individuals that takes place in a co...