کرایہ داری مقدمات میں شواہد کی عدم پیشی اور عدالتی رویہ – ایک جائزہ
عدالتوں میں کرایہ داری کے مقدمات میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک فریق کو شواہد پیش کرنے کے لیے وقت دیا جاتا ہے، لیکن وہ بار بار مہلت لینے کے باوجود ثبوت فراہم نہیں کرتا۔ ایسے معاملات میں کرایہ کنٹرولر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ مزید تاخیر سے بچنے کے لیے متعلقہ فریق کے شواہد بند کر دے۔ اس اصول کی وضاحت لاہور ہائی کورٹ کے ایک اہم فیصلے 1992 CLC 1848 میں کی گئی ہے۔
پس منظر
اس مقدمے میں کرایہ دار کو کرایہ کنٹرولر کی طرف سے بار بار موقع دیا گیا کہ وہ اپنے شواہد پیش کرے، لیکن وہ مسلسل مہلت لیتا رہا اور مقررہ وقت میں شواہد پیش نہ کر سکا۔ کرایہ کنٹرولر نے کئی وارننگز کے بعد اس کے شواہد بند کر دیے۔ کرایہ دار نے اس حکم کو آئینی درخواست کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شواہد بند کرنا غیر منصفانہ ہے اور اس سے اس کے دفاع کے حق کو نقصان پہنچا ہے۔
عدالت عالیہ کا فیصلہ
لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ کرایہ کنٹرولر نے اپنے دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے یہ فیصلہ دیا اور اس میں کوئی قانونی سقم نہیں پایا گیا۔ عدالت نے مزید وضاحت کی کہ اگر کرایہ دار کو اس فیصلے پر اعتراض تھا تو اسے آئینی درخواست دائر کرنے کے بجائے اپیل کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ چونکہ یہ فیصلہ عدالتی صوابدید کے تحت آیا تھا اور کسی قسم کی غیر قانونی یا غیر منصفانہ کارروائی کا ثبوت نہیں ملا، اس لیے آئینی درخواست مسترد کر دی گئی۔
قانونی نکتہ نظر
یہ فیصلہ اس اصول کو تقویت دیتا ہے کہ کسی مقدمے میں اگر فریقین کو شواہد پیش کرنے کا مناسب موقع دیا جائے اور وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں، تو عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ معاملے کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بجائے میرٹ پر فیصلہ کرے۔ خاص طور پر کرایہ داری کے مقدمات میں، جہاں معاملات کو غیر ضروری طوالت دینے کی کوشش کی جاتی ہے، عدالتوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تاخیری حربوں کو ناکام بنائیں اور جلد از جلد مقدمے کا فیصلہ کریں۔
نتیجہ
1992 CLC 1848 کا فیصلہ کرایہ داری مقدمات میں عدالتی رویے کی ایک واضح مثال ہے، جس میں عدالت نے فریقین کو دی گئی مہلت اور قانونی دائرہ اختیار کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مقدمات میں غیر ضروری تاخیر اور بار بار مہلت لینا کسی بھی فریق کے حق میں فائدہ مند نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے قانونی حق سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔ عدالتیں عمومی طور پر ایسے معاملات میں غیر معمولی آئینی دائرہ اختیار استعمال کرنے سے گریز کرتی ہیں اور متعلقہ فریق کو اپیل کا قانونی راستہ اختیار کرنے کی ہدایت دیتی ہیں۔
******** Citation Name : 1992 CLC 1848 LAHORE-HIGH-COURT-LAHORE ****** Side Appellant :** GHULAM HUSSAIN ****** Side Opponent :** SAGHIR HUSSAIN West Pakistan Urban Rent Restriction Ordinance 1959 S.13---Constitution of Pakistan (1973), Art. 199---Constitutional diction, exercise of---Rent Controller's order closing tenant's evidence due jurisdiction, to his failure to produce same despite several Adjournment s and repeated warnings---Validity---Order in question, having been passed in proceedings competently pending before Rent controller, discretion exercised by him did not suffer from any error of jurisdiction---Question of propriety of order in question could be urged as and when matter was taken up before Appellate Court, in case ultimate order to be passed by Rent Controller was against tenant---No case for interference in exercise of extraordinary Constitutional jurisdiction having been made out, same was dismissed in circumstances
No comments:
Post a Comment