سیکشن 12(2) سی پی سی: عدالتی فیصلوں میں دھوکہ دہی اور غیر قانونی عمل کا تدارک
پاکستانی عدالتی نظام میں انصاف کی فراہمی اور عدالتی احکامات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے مختلف قوانین اور دفعات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک اہم دفعہ سیکشن 12(2) سی پی سی ہے، جو دھوکہ دہی، غلط بیانی یا دائرہ اختیار کی کمی کی بنیاد پر جاری کردہ عدالتی فیصلوں کے خلاف درخواست دائر کرنے کا حق فراہم کرتی ہے۔
---
سیکشن 12(2) سی پی سی کی قانونی حیثیت
سیکشن 12(2) سی پی سی اصل قانون کا حصہ نہیں تھا بلکہ اسے آرڈیننس X آف 1980 کے ذریعے شامل کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی متاثرہ فریق عدالت کے فیصلے، ڈگری یا حکم کے خلاف یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ دھوکہ دہی، غلط بیانی یا عدالت کے دائرہ اختیار کی کمی کے نتیجے میں جاری کیا گیا ہے۔
اس دفعہ کے تحت عدالت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہی جاری کردہ فیصلے کا جائزہ لے اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ فیصلہ غیر قانونی، دھوکہ دہی پر مبنی یا غلط بیانی کا نتیجہ ہے تو اسے کالعدم قرار دے۔
---
طریقہ کار اور عدالتی اختیار
دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکشن 12(2) سی پی سی کے تحت درخواست کے تعین کے لیے کوئی مخصوص طریقہ کار مقرر نہیں کیا گیا۔ تاہم، سیکشن 141 سی پی سی کے تحت عدالتیں عام مقدمات کے طریقہ کار کو اپنانے کی مجاز ہیں۔
عدالت کے پاس یہ صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ درخواست کو فوری طور پر مسترد کرے یا ضروری امور کی نشاندہی کرتے ہوئے باقاعدہ سماعت کرے۔ یہ عدالت کی قانونی حکمت اور مقدمے کے حالات پر منحصر ہوتا ہے کہ آیا اسے فوری فیصلہ دینا چاہیے یا تفصیلی سماعت کرنی چاہیے۔
---
لاہور ہائیکورٹ کا اہم فیصلہ
حالیہ کیس ممتاز احمد بنام امجد نیاز عباسی وغیرہ (WP.3639-19، 10-03-2025، 2025 LHC 1046) میں لاہور ہائیکورٹ نے واضح طور پر قرار دیا کہ عدالت آئینی دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ہم آہنگ مگر غیر قانونی فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر نچلی عدالتوں کے ہم آہنگ فیصلے بھی ظاہر طور پر غیر قانونی اور غیر منصفانہ ہوں، تو اعلیٰ عدالت ان پر مہر تصدیق ثبت نہیں کر سکتی۔
---
آئینی دائرہ اختیار کا استعمال
آئینی دائرہ اختیار کے استعمال کے حوالے سے عدالت نے یہ اصول واضح کیا کہ اگر نچلی عدالتوں کے فیصلے واضح قانونی غلطیوں سے بھرپور ہوں تو عدالت عالیہ ان فیصلوں کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ انصاف کے اصولوں کے مطابق عدالت کو ناانصافی کے تسلسل کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
---
نتیجہ
سیکشن 12(2) سی پی سی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ایک اہم اور مؤثر قانونی راستہ فراہم کرتی ہے۔ یہ دفعہ نہ صرف عدالتی خود احتسابی کو ممکن بناتی ہے بلکہ متاثرہ فریق کو بھی قانونی تحفظ فراہم کرتی ہے۔
عدالت عالیہ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ فیصلے نے اس دفعہ کی اہمیت اور اس کے استعمال کے دائرے کو مزید واضح کیا ہے، جو مستقبل میں عدالتی عمل کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے۔
Sub-Section (2) of Section 12 of CPC was initially not the part of said provision. It was inserted through Ordinance X of 1980 so as to provide a remedy to an aggrieved person to challenge the validity of judgment, decree or order on the plea of fraud, misrepresentation or want of jurisdiction by filing an application to the court which passed the final judgment, decree or order. (Naeem)The object of Sub-Section (2) of Section 12 of CPC, apparently, was to enable a court to nullify its own judgment, decree or order obtained by practicing fraud, misrepresentation or suffering with parent illegalities on account of lack of jurisdiction. No procedure has been prescribed for determination of such application nor any separate remedy is indicated against such determination, however, by virtue of Section 141 of CPC, a procedure prescribed for suits is to be followed. It is thus left upon discretion of the court, seized with the application, either to decide it summarily or after framing of necessary issues, which always dependent upon peculiar facts and circumstances of each case. In other words, Section 12(2) of CPC empowers a court, who passed the judgment, decree or order to scrutinize it if it is outcome of fraud, misrepresentation or lack of jurisdiction and to annul it by its own.
There is no cavil that ordinarily this Court restrains itself to interfere with the concurrent findings of the courts below, while exercising constitutional jurisdiction but this is not an inflexible and absolute rule. The Courts exercising constitutional jurisdiction cannot shut its eyes to confirm the findings of the courts below merely on the ground that those are concurrent. Even if there are concurrent findings but tainted with patent illegalities, there is no embargo to set the same at naught in exercise of constitutional jurisdiction as the Court cannot perpetuate a wrong as a part of policy.
WP.3639-19
MUMTAZ AHMED VS AMJAD NIAZ ABBASI ETC
10-03-2025
2025 LHC 1046
For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp
Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.
No comments:
Post a Comment