Translate

4/05/2025

How Stay Orders Affect Execution Requests: Legal Analysis of 2025 CLC 344 Sindh High Court Decision




قانونی دنیا میں اکثر ایسے معاملات پیش آتے ہیں جہاں فیصلے کے باوجود عمل درآمد میں تاخیر ہو جاتی ہے، اور اس کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا ایسی تاخیر کے باوجود درخواست دائر کرنا ممکن ہے؟ 2025 CLC 344 میں سندھ ہائی کورٹ نے اسی سوال کا جواب دیا اور اجرا کی درخواستوں پر اہم فیصلہ سنایا۔

مقدمہ کی تفصیلات:

مقدمہ 22 دسمبر 1999 کو فیصلہ ہوا، اور ڈگری جاری کی گئی۔ لیکن اجرا کی درخواست پہلی بار 26 اپریل 2002 کو دائر کی گئی، جسے عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا۔

مقدمے کے فریق نے بعد میں اجرا کی دوبارہ درخواست دائر کی، تاہم اس پر اعتراض یہ تھا کہ حد بندی ایکٹ 1908 کے مطابق درخواست دائر کرنے کی مدت 3 سال تھی، اور چونکہ پہلے ہی 6 سال گزر چکے تھے، اس لیے درخواست کو خارج کر دینا چاہیے۔

ہائی کورٹ کا فیصلہ:

عدالت نے اس اعتراض کا جائزہ لیا اور کہا:

"اگر کسی فیصلے پر اپیل دائر کی جائے اور اسٹے آرڈر (حکم امتناعی) جاری ہو، تو اس دوران کی مدت کو حد بندی کے دوران میں شمار نہیں کیا جاتا۔"

عدالت نے مزید کہا کہ چونکہ اس کیس میں اسٹے آرڈر جاری ہوا تھا، اس لیے وقت کی گنتی رک گئی تھی اور دوبارہ درخواست دینا قانونی طور پر جائز تھا۔


لہٰذا، عدالت نے اجرا کی درخواست کو وقت کے اندر قرار دیتے ہوئے درخواست بحال کر دی۔

قانونی نکات:

1. اسٹے آرڈر کی اہمیت:
جب کوئی فیصلہ چیلنج کیا جائے اور اسٹے آرڈر جاری ہو، تو اس دوران کی مدت کو حد بندی کی مدت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹے کے دوران جو وقت گزرتا ہے، وہ قانونی طور پر متوقف رہتا ہے، اور بعد میں درخواست دائر کرنا جائز ہوتا ہے۔


2. عملی اثرات:
اس فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقت کی حدود کو عدالت معمولی حالات میں نرمی سے دیکھ سکتی ہے۔ اگر اسٹے آرڈر یا اپیل کی وجہ سے عمل درآمد میں تاخیر ہو، تو فریقین کے لیے دوبارہ درخواست دینا ایک قانونی حق ہوتا ہے۔



نتیجہ:

یہ فیصلہ ان افراد کے لیے اہم ہے جو عدالتی فیصلے کے باوجود اجرا یا عمل درآمد میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ اسٹے آرڈر اور اپیل کی موجودگی میں وقت کی حد میں نرمی دی جا سکتی ہے، اور اس سے دوبارہ درخواست دائر کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Can Photocopies Prove Property Ownership? Legal Insight from 2025 CLC 215 Sindh







 ذیل میں 2025 CLC 215 سندھ کے فیصلے پر مبنی ایک سادہ، معلوماتی اور قانونی شعور بیدار کرنے والا  آرٹیکل پیش کیا جا رہا ہے:


فوٹو کاپیاں بطور ثبوت؟ ایک قانونی نظر — 2025 CLC 215 سندھ کا جائزہ

قانونی معاملات میں دستاویزات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، خاص طور پر جب بات جائیداد کی ملکیت کے دعوے کی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا فوٹو کاپی (فوٹو سٹیٹ) پر ملکیت ثابت کی جا سکتی ہے؟
اسی سوال کا جواب ہمیں سندھ ہائی کورٹ کے ایک اہم فیصلے 2025 CLC 215 سے ملتا ہے۔

پس منظر:

ایک شخص نے دعویٰ دائر کیا کہ وہ ایک مخصوص پلاٹ کا مالک ہے۔ ثبوت کے طور پر اس نے صرف فوٹو سٹیٹ کاپیاں عدالت کے سامنے پیش کیں۔
اصل دستاویزات نہ پیش کی گئیں اور نہ ہی عدالت کو بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں یا کیوں غائب ہیں۔

عدالت کا مؤقف:

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا:

  • "جب تک اصل کاغذات کی تباہی یا عدم موجودگی کا کوئی واضح ثبوت پیش نہ کیا جائے، فوٹو کاپیاں بطور ثبوت قابلِ قبول نہیں ہوتیں۔"
  • صرف فوٹو کاپیاں دکھانے سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ اصلی ہیں یا جعلی۔

اہم مشاہدہ:

اس کے باوجود عدالت نے یہ بھی کہا کہ:

  • "اگر کوئی تکنیکی خامی ہو، تو صرف اس بنیاد پر مقدمہ خارج نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر جب معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہو اور اسے آسانی سے درست کیا جا سکے۔"

فیصلہ:

  • عدالت نے مقدمہ خارج کرنے کے بجائے سکینڈ اپیل منظور کی اور کیس کو ریمانڈ (دوبارہ سماعت کے لیے واپس) کر دیا تاکہ معاملہ مکمل طور پر سنا جا سکے۔

قانونی سیکھ:

  • فوٹو کاپیاں صرف تبھی قابلِ قبول ہوتی ہیں جب اصل نہ ہونے کا معقول سبب موجود ہو۔
  • عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو مقدم رکھتی ہیں، اور ہر معاملے میں صرف کاغذی تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ نہیں کرتیں۔

اگر آپ جائیداد سے متعلق کسی قانونی تنازع میں ہیں تو یاد رکھیں:
اصل دستاویزات بہت قیمتی ہوتی ہیں — ان کا سنبھال کر رکھنا آپ کی قانونی پوزیشن مضبوط بناتا ۔


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

4/04/2025

Key Legal Aspects of Gift (Tamleek) Cases: Insights from Lahore High Court Judgment





ریفرنس:
Civil Revision No. 27145 of 2017
Mst. Sadiqan Begum vs. Muhammad Siddique
فیصلہ: 24 فروری 2025
Citation: 2025 LHC 1405
عدالت: لاہور ہائیکورٹ
موضوع: ھبہ (تملیک) کے تقاضے اور قانونی جواز


ہبہ (تملیک) کے مقدمات میں اہم قانونی نکات

ہبہ یا تملیک ایک ایسی قانونی کارروائی ہے جس کے ذریعے کوئی شخص اپنی ملکیت یا جائیداد کو رضاکارانہ طور پر دوسرے شخص کو منتقل کرتا ہے۔ یہ معاملہ خصوصاً اس وقت پیچیدہ ہو جاتا ہے جب کوئی قانونی تنازع پیدا ہو اور طرفین میں سے ایک اپنی ملکیت کو ہبہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ (Civil Revision No. 27145 of 2017) اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ہبہ کے مقدمات میں کن کن قانونی نکات کو اہمیت دی جاتی ہے اور کس طرح ان نکات کو مقدمے کے دوران ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے۔

ہبہ کے بنیادی اجزاء

ہبہ کے دعوے کے لیے تین لازمی اجزاء کو ثابت کرنا ضروری ہے:

1. پیشکش (Offer):
ہبہ کی پیشکش کرنا ضروری ہے، یعنی مالک یا دان دینے والا شخص یہ ظاہر کرے کہ وہ اپنی جائیداد کسی دوسرے شخص کو دے رہا ہے۔


2. قبولیت (Acceptance):
ہبہ کی پیشکش کے بعد، مطلوبہ شخص کو اسے قبول کرنا ضروری ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہبہ کا عمل مکمل ہوا۔


3. قبضہ کی حوالگی (Delivery of Possession):
ہبہ مکمل ہونے کے لیے، جائیداد کا قبضہ بھی منتقل ہونا چاہیے۔ قبضے کی حوالگی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہبہ واقعی ہو چکا ہے۔



یہ تین اجزاء ہبہ کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بنیادی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

زبانی ہبہ اور اس کی شرائط

جب ہبہ زبانی طور پر کیا جاتا ہے، تو اس کے ثابت کرنے کے لیے مزید احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانی ہبہ کے لیے ضروری ہے کہ:

وقت اور تاریخ: ہبہ کا وقت اور تاریخ معلوم ہو تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہبہ اس مخصوص وقت پر ہوا۔

مقام: جہاں پر ہبہ کی کارروائی کی گئی، اس کا تعین کرنا ضروری ہے۔

گواہان: ایسے گواہان کی موجودگی جو اس ہبہ کے وقوع کو ثابت کرسکیں۔


اگر یہ تفصیلات فراہم نہ کی جائیں تو ہبہ کو تسلیم کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جیسا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں دیکھا گیا۔

ریونیو ریکارڈ اور اس کی اہمیت

ہبہ کے دعوے میں ایک اور اہم نکته یہ ہے کہ ریونیو ریکارڈ میں تبدیلی یا انتقال کو صرف ہبہ کا ثبوت نہیں سمجھا جاتا۔ یعنی، اگر کسی جائیداد کا انتقال ریونیو ریکارڈ میں ہو جائے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جائیداد ہبہ کے ذریعے منتقل ہوئی ہے۔ جائیداد کی اصل منتقلی کا ثبوت قبضے اور اصل ہبہ کے شواہد کے ذریعے پیش کرنا ضروری ہے۔

وارثوں کی محرومی اور جواز

اگر ہبہ کی کارروائی کسی وارث کے حقوق کو متاثر کرتی ہے، تو ہبہ کرنے والے شخص کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ وارث اس جائیداد کا قانونی حق نہیں رکھتے تھے یا وہ کسی قانونی جواز کی بنیاد پر ہبہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ عدالت کی نظر میں، ہبہ کرنے والے شخص پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ وارث کو محروم کرنے کا مناسب جواز فراہم کرے۔

قبضے کا کردار

اگر ہبہ کے بعد جائیداد کا قبضہ دینے والے کے پاس باقی رہ جائے، تو عدالت اس جائیداد کو ہبہ کا تسلیم نہیں کرتی۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ واضح کیا گیا کہ قبضہ کا منتقلی نہ ہونا ہبہ کے دعوے کے خلاف اہم دلیل بنتا ہے۔

نتیجہ

ہبہ کے مقدمات میں پیشکش، قبولیت، قبضہ، اور قانونی جواز جیسے اہم نکات کو ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ نکات مکمل طور پر ثابت نہ ہوں، تو عدالت ایسے دعووں کو مسترد کر دیتی ہے، جیسے کہ لاہور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے میں ہوا۔ اس کیس میں، بھائی کو ہبہ کے تمام ضروری اجزاء ثابت کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں عدالت نے اس کا دعویٰ مسترد کر دیا۔

لہٰذا، ہبہ کے مقدمات میں ضروری ہے کہ تمام قانونی نکات اور تقاضے پورے کیے جائیں تاکہ ہبہ کا دعویٰ تسلیم کیا جا سکے۔

JUDGEMENT.

صرف یہ ایک ہی فیصلہ پڑھ کر آپ ہبہ/تملیک کے مقدمہ کے تمام تر پہلوؤں اور قانونی لوازمات کے بارے مکمل دسترس حاصل کرسکتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ ہبہ/تملیک کے مکمل انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔جس میں ہبہ/تملیک کے تمام قانونی لوازمات کا سپریم کورٹ کے ان موضوعات پر تقریبا تمام فیصلہ جات کی روشنی میں بھر پور احاطہ کیا گیا ہے

a) Beneficiary of the impugned transaction of gift/transfer of immovable property(s) bears the heavy onus to prove the transaction.;
Ref:
Muhammad Sarwar v. Mumtaz Bibi and others (2020 SCMR 276); Mst. Parveen (deceased) through LRs v. Muhammad Pervaiz and others (2022 SCMR 64); Mst. Hayat Bibi and others v. Alamzeb and others (2022 SCMR 13) Islam ud Din (deceased) through L.Rs. and others v. Mst. Noor Jahan (deceased) through L.Rs. and others (PLJ 2016 SC 616) Phull Peer Shah v. Hafeez Fatima (2016 SCMR 1225); Peer Baksh through L.Rs. and others v. Mst. Khanzadi and others (2016 SCMR 1417) Amjad Ikram v. Mst. Asiya Kausar and 2 others (2015 SCMR 1), Ibrahim Kamal v. Mst. Malooka Bibi and others (2012 SCMR 1), and Khaliqdad Khan and others v. Mst. Zeenat Khatoon and others (2010 SCMR 1370).

(b) The beneficiary of a gift has to plead and prove three mandatory ingredients of gift i.e. declaration/offer by the donor, acceptance of gift by the donee; and, delivery of possession under the gift.;
Ref:
Bilal Hussain Shah and another v. Dilawar Shah (PLD 2018 SC 698); Khalid Hussain and others v. Nazir Ahmad and others (2021 SCMR 1986); Government of Khyber Pakhtunkhwa through Chief Secretary Civil Secretariat, Peshawar and others v. Shah Faisal Wahab and others (2023 SCMR 1642); Mst. Tahira Samina and others v. Javed Saeed Tariq and others (2024 SCMR 24); Mst. Saadia v. Mst. Gul Bibi (2016 SCMR 662); Mst. Nagina Begum v. Mst. Tahzim Akhtar and others (2009 SCMR 623); Khalida Idrees and others v. Anas Farooq Chaudhary and others (PLD 2018 LAH 819); Mst. Rasheeda Bibi v. Mukhtar Ahmad and others (2008 SCMR 1384); Islam-ud-Din through L.Rs and others v. Mst.l Noor Jahan through L.Rs and others (2016 SCMR 986); Mst. Shafqat Parveen v. Muhammad Iftikhar Amjad and others (2012 SCMR 1602); Rehmat Noor v. Zulqarnian (2023 SCMR 1645); Syed Ahmad v. Ali Akbar and others (2021 SCMR 743);

(c) The possession of immovable property by one of the siblings/LRs to the exclusion of others will be treated as constructive possession on behalf of all others, unless proved otherwise.;
Ref:
Mst. Tahira Samina and others v. Javed Saeed Tariq and others (2024 SCMR 24); Government of Khyber Pakhtunkhwa through Chief Secretary Civil Secretariat, Peshawar and others v. Shah Faisal Wahab and others (2023 SCMR 1642); (naeem)Agha Syed Mushtaque Ali Shah v. Mst. Bibi Gul Jan and others (2016 SCMR 910); Fareed and others v. Muhammad Tufail and another (2018 SCMR 139);

(d)In case of oral transactions, it is mandatory for a beneficiary of oral transaction to prove the same through positive evidence by supplying mandatory material particulars in the pleadings i.e. the time & date, the venue, the persons/witnesses in whose presence the alleged transaction was brought about.
Ref:
Muhammad Shafiq Ullah and others v. Allah Bakhsh (deceased) through L.Rs. and others (2021 SCMR 763), Saddaruddin (since deceased) through L.Rs. v. Sultan Khan (since deceased) through L.Rs. and others (2021 SCMR 642), Muhammad Riaz and others v. Mst. Badshah Begum and others (2021 SCMR 605), (naeem)Atta Muhammad and others v. Mst. Munir Sultan (deceased) through her L.Rs. and others (2021 SCMR 73), Muhammad Yaqoob v. Mst. Sardaran Bibi and others (PLD 2020 S.C. 338), Jubilee General Insurance Co. Ltd. Karachi v. Ravi Steel Company, Lahore (PLD 2020 S.C. 324), Muhammad Nawaz and others v. Sakina Bibi and others (2020 SCMR 1021), Muhammad Sarwar v. Mumtaz Bibi and others (2020 SCMR 276), Moiz Abbas v. Mrs. Latifa and others (2019 SCMR 74); Naveed Akram and others v. Muhammad Anwar (2018 SCMR 1095); Allah Ditta and others v. Manak alias Muhammad Siddique and others (2017 SCMR 402), Peer Baksh through L.Rs. and others v. Mst. Khanzadi and others (2016 SCMR 1417); Muhammad Nawaz through L.Rs. v. Haji Muhammad Baran Khan through L.Rs. and others (2013 SCMR 1360) and Muhammad Nawaz through L.Rs. v. Haji Muhammad Baran Khan through L.Rs. and others (2013 SCMR 1300)

e) The oral transaction of transfer of immovable property, be it sale, gift/tamleek, surrender or will etc. has to be proved separate from its incorporation/attestation in revenue record by way of sanctioning of the mutation since a mutation cannot by itself be considered a document of title.;
Ref:
Mst. Brikhna v. Faiz Ullah Khan and others (2020 SCMR 1681), Muhammad Yaqoob v. Mst. Sardaran Bibi and others (PLD 2020 S.C. 338), Fazal Ellahi (deceased) through its Legal Heirs v. Mst. Zainab Bibi (2019 SCMR 1930), Ghulam Sarwar (deceased) through L.Rs. and others (2019 SCMR 567), Islam ud Din (deceased) through L.Rs. and others v. Mst. Noor Jahan (deceased) through L.Rs. and others (PLJ 2016 S.C. 616), (naeem)Phul Peer Shah v. Hafeez Fatima (2016 SCMR 1225), Muhammad Ishaq v. Muhammad Shafiq and 9 others (2007 SCMR 1773), Haji Muhammad Anwar v. Muhammad Ahmed and others (2007 SCMR 1961), Rehmatullah and others v. Saleh Khan and others (2007 SCMR 729), Aurangzeb through L.Rs. and others v. Muhammad Jaffar and another (2007 SCMR 236), Mst. Janntan and others v. Mst. Taggi through L.Rs. and others (PLD 2006 S.C. 322), Muhammad Akram and another v. Altaf Ahmad (PLD 2003 S.C. 688), Muhammad Lehrasab Khan v. Mst. Aqeel un Nisa and 5 other (2001 SCMR 338), Muhammad Ihsaq and another v. Mst. Gazala Riaz and 8 others (1997 SCMR 974) and Mst. Noor Fatima and another v. Begum Bibi and another (1990 SCMR 629)

f) Where a gift, which excluded a legal heir, irrespective of whether such transaction is evidenced by registered deed, the Donee is required to prove original transaction and must justify the disinheritance of a legal heir from the estate.;
Ref:
Fareed and others v. Muhammad Tufail and another (2018 SCMR 139);Mst. Tahira Samina and others v. Javed Saeed Tariq and others (2024 SCMR 24)

g) Parties are bound by their pleadings; no amount of evidence can be led beyond the scope of pleadings; and in case any such evidence is brought on record, the Court cannot consider and rely upon the same and has to discard it.;
Ref:
Moiz Abbas v. Mrs. Latifa and others (2019 SCMR 74); Saddaruddin through LRs v. Sultan Khan (Since deceased) through LRs and others (2021 SCMR 642) Muhammad Nawaz alias Nawaza and others v. Member Judicial Board of Revenue and others (2014 SCMR 914) (naeem)Combined Investment (Pvt.) Ltd. V. Wali Bhai and others (PLD 2016 Supreme Court 730); Muhammad Iqbal v. Mehboob Alam (2015 SCMR 21); Messrs Essa Engineering Company Pvt. Ltd. and another v. Pakistan Telecommuncation Company Limited and another (2014 SCMR 922)

h) Mere efflux of time does not extinguish the right of inheritance, thus, the question of limitation in case of inheritance and fraud is not attracted and becomes insignificant;
Ref:
Mohammad Boota (deceased) through L.Rs., and others v. Mst. Fatima daughter of Gohar Ali and others (2023 SCMR 1901), Noor Din (deceased) through LRs v. Pervaiz Akhtar and others (2023 SCMR 1928), Salamat Ali and others v. Muhammad Din and others (PLD 2022 S.C. 353), Syed Kausar Ali Shah and others v. Syed Farhat Hussain Shah and others (2022 SCMR 1558), Faqir Ali and others v. Sakina Bibi and others (PLD 2022 S.C. 85), Muhammad Sharif and others v. MCB Bank Limited and others (2021 SCMR 1158), Haji Wajdad v. Provincial Government through Secretary Board of Revenue, Government of Balochistan, Quetta and others (2020 SCMR 2046), Shabla and others v. Ms. Jahan Afroz Khilat and others (2020 SCMR 352), Ghulam Farid and another v. Sher Rehman through LRs. (2016 SCMR 862), Syed Mehmood Ali Shah v. Zulfiqar Ali and 5 others (PLD 2013 SC 364) and Messrs Paramount Spinning Mills Ltd. v. Customs, Sales Tax and Central Excise Appellate Tribunal and another (2012 SCMR 1860), Muhammad Iqbal and 5 others v. Allah Bachaya and 18 others (2005 SCMR 1447), Muhammad Zubair and others v. Muhammad Sharif (2005 SCMR 1217) and Dr. Muhammad Javaid Shafi v. Syed Rashid Arshad and others (PLD 2015 SC 212); (naeem)Peer Baksh through LRs and others v. Mst. Khanzadi and others (2016 SCMR 1417); Khan Muhammad through L.Rs and others v. Mst. Khatoon Bibi and others (2017 SCMR 1476), Muhammad Mahmood Shah v. Syed Khalid Hussain Shah and others (2015 SCMR 869); Rehmatullah and others v. Saleh Khan and others (2007 SCMR 729), Arshad Khan v. Mst. Resham Jan and others (2005 SCMR 1859); Khair Din v. Mst. Salaman and others (PLD 2002 SC 677); Mst. Gohar Khanum and others v. Mst. Jamila Jan and others (2014 SCMR 801); Ghulam Ali and 2 others v. Mst. Ghulam Sarwar Naqvi (PLD 1990 Supreme Court 1)

Civil Revision No. 27145 of 2017
Mst. Sadiqan Begum Versus Muhammad Siddique
Date of Hearing: 24.02.2025
2025 LHC 1405


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Illegal Detention and Legal Remedies (Habeas Corpus Petition)

 




غیر قانونی حراست (حبسِ بے جا) ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسے قانونی طریقے سے چیلنج کرنا چاہیے، نہ کہ غیر قانونی ذرائع جیسے رشوت وغیرہ کے ذریعے۔

غیر قانونی حراست (حبسِ بے جا) کیا ہے؟

جب کسی شخص کو پولیس یا کسی بھی اتھارٹی کی جانب سے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جائے، تو اسے حبسِ بے جا (Illegal Detention) کہا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

  1. بلاوجہ گرفتاری – جب کوئی شخص کسی مقدمے میں مطلوب نہ ہو لیکن پھر بھی اسے گرفتار کر لیا جائے۔
  2. گرفتاری کی دستاویزات کا اندراج نہ ہونا – اگر کوئی شخص کسی کیس میں مطلوب ہو لیکن اس کی گرفتاری پولیس کے روزنامچہ (Register) میں درج نہ کی جائے۔
  3. عدالتی حکم کے بغیر حراست میں رکھنا – جب کسی شخص کو چوبیس (24) گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔

حبسِ بے جا کے خلاف قانونی کارروائی

اگر کسی عزیز کو پولیس نے غیر قانونی طور پر گرفتار کر لیا ہے تو آپ درج ذیل قانونی اقدامات کر سکتے ہیں:

1. حبسِ بے جا کی درخواست (Habeas Corpus Petition) دائر کرنا

  • یہ درخواست سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے۔
  • درخواست میں یہ نہیں لکھنا کہ    آپ کے عزیز کو کس تھانے میں رکھا گیا ہے۔
  • درخواست میں صرف یہ بیان کریں کہ متعلقہ شخص کو پولیس نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا ہوا ہے اور اسے فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔

2. عدالت سے بیلف جاری کروانا

  • عدالت ایک بیلف آفیسر تعینات کرے گی جو اس شخص کو بازیاب کرانے کے لیے جائے گا۔
  • بیلف کو بھی یہ نہیں بتایا جائے کہ گرفتار شدہ شخص کس تھانے میں ہے۔
  • پہلے کسی قابلِ بھروسہ شخص کو تھانے بھیج کر تصدیق کروائیں کہ گرفتار شدہ شخص واقعی وہاں موجود ہے۔

3. پولیس کا ردِ عمل

جب بیلف تھانے پہنچے گا، تو پولیس کا رجسٹر روزنامچہ پکڑے گا اور گرفتاری ڈالنے کا موقغ نہیں دے گا۔ قانونی مجبوری کے تحت حراست میں لیے گئے شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ اگر پولیس نے واقعی غیر قانونی حراست میں رکھا ہوگا تو عدالت سخت نوٹس لے سکتی ہے اور متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

حبسِ بے جا کے کیس میں ممکنہ عدالتی کارروائی

  • عدالت پولیس سے وضاحت طلب کرے گی کہ گرفتاری کیوں اور کس بنیاد پر ہوئی؟
  • اگر گرفتاری غیر قانونی ثابت ہو جائے تو عدالت گرفتار شخص کو فوراً رہا کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
  • عدالت ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ یا فوجداری کارروائی کے احکامات جاری کر سکتی ہے۔

نتیجہ

حبسِ بے جا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسے قانونی طریقے سے حل کرنا ہی سب سے مؤثر راستہ ہے۔ رشوت دینا یا غیر قانونی ذرائع اختیار کرنا نہ صرف جرم ہے بلکہ اس سے پولیس کی غیر قانونی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اگر زیادہ لوگ قانونی راستہ اختیار کریں گے تو پولیس بھی اپنی غیر قانونی سرگرمیاں کم کرنے پر مجبور ہوگی۔


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

"The Legal Battle Over Illegal Possession: A Supreme Court Case Analysis"






پاکستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ: ایک جائزہ

پاکستان میں عدالتی معاملات میں اکثر پیچیدگیاں اور طویل قانونی جنگیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم کیس جو حالیہ برسوں میں میڈیا اور قانونی حلقوں میں زیر بحث آیا، وہ تھا محمد فیروز الدین ہلالی بمقابلہ نادِر اور دیگر۔ یہ کیس متعدد عدالتوں میں سنا گیا اور آخرکار پاکستان کی سپریم کورٹ میں فیصلہ سنایا گیا۔ اس مضمون میں ہم اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔

کیس کا پس منظر

یہ کیس 2005 کے "غیر قانونی قبضہ" کے قانون کے تحت دائر کیا گیا تھا، جس میں مدعی محمد فیروز الدین ہلالی نے اپنی زمین پر غیر قانونی قبضے کے خلاف شکایت کی تھی۔ ابتدائی طور پر، 2010 میں ضلع عدالت نے ہلالی کی درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد، ہلالی نے 2016 میں سول دعویٰ دائر کیا، لیکن اس دعویٰ کو 17 اپریل 2017 کو ٹرائل کورٹ نے شواہد پیش نہ کرنے کی بنیاد پر مسترد کر دیا۔

عدالت کی کارروائی اور فیصلہ

17 اپریل 2017 کو جب ٹرائل کورٹ میں مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی، مدعی یا ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ انہوں نے ایک التواء کی درخواست بھیجی جس میں کہا گیا کہ مدعی بخار میں مبتلا ہیں۔ عدالت نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ مدعی نے پہلے بھی کئی بار التواء کی درخواستیں دی تھیں اور اب مزید کسی موقع کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مدعی کا دعویٰ یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

اپیلیٹ کورٹ میں اپیل

ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد، ہلالی نے پہلی اپیلیٹ کورٹ میں اپیل دائر کی۔ اپیلیٹ کورٹ نے اس اپیل کو 13 اپریل 2019 کو مسترد کر دیا اور کہا کہ مدعی نے مقدمے کے دوران عدالت کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ مدعی نے شواہد پیش کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی اور مقدمے کی سماعت میں مسلسل التواء کی درخواستیں دیں۔

ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک سفر

پہلی اپیلیٹ کورٹ کے فیصلے کے بعد، ہلالی نے سندھ ہائی کورٹ میں دوسری اپیل دائر کی، جو 27 جنوری 2023 کو بھی مسترد ہو گئی۔ ہلالی نے پھر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جو 25 مارچ 2025 کو سماعت کے بعد مسترد کر دی گئی۔ سپریم کورٹ نے تین عدالتوں کے فیصلوں کو درست قرار دیا اور کہا کہ مدعی نے اپنی درخواست میں کوئی قانونی غلطی ثابت نہیں کی۔

سپریم کورٹ کا موقف

سپریم کورٹ نے اس کیس میں واضح طور پر کہا کہ سی پی سی کی دفعہ 100 کے تحت اپیل صرف اس صورت میں سنی جا سکتی ہے جب کوئی سنگین قانونی غلطی ہو، جو اس کیس میں موجود نہیں تھی۔ عدالت نے کہا کہ مدعی نے مقدمے کی سماعت کے دوران بار بار التواء کی درخواستیں دیں اور شواہد پیش نہیں کیے، جس کی وجہ سے اس کا دعویٰ مسترد کیا گیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ مدعی نے اس حوالے سے نہ تو پہلی اپیلیٹ کورٹ میں اور نہ ہی دوسری اپیلیٹ کورٹ میں کوئی ٹھوس دلیل پیش کی۔

نتیجہ

اس کیس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کا نظام شفاف اور قانون کی بالا دستی کے اصولوں پر قائم ہے، جہاں کسی بھی فریق کو اگر انصاف کے لیے مقدمہ دائر کرنا ہو تو اسے تمام قانونی تقاضے پورے کرنا ہوتے ہیں۔ مدعی نے اگرچہ بار بار التواء کی درخواستیں دیں، مگر شواہد پیش نہ کرنے کی وجہ سے عدالت نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

یہ کیس ایک اہم سبق فراہم کرتا ہے کہ مقدمہ دائر کرتے وقت ہر فریق کو اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے مستند شواہد پیش کرنا ضروری ہے اور مسلسل التواء کی درخواستیں انصاف کے حصول میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

کیا ہم نے کچھ سیکھا؟

یہ کیس ہمیں بتاتا ہے کہ قانونی طریقہ کار کی پیروی کرنا ضروری ہے اور عدالتیں قانون کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔ اگر کسی فریق کو انصاف چاہیے تو اسے تمام قانونی اصولوں کا احترام کرنا ہوگا۔ اگرچہ مدعی نے اس کیس میں کئی مواقع پر اپنے حقوق کا دفاع کرنے کی کوشش کی، لیکن قانونی تقاضوں کی کمی اور مسلسل التواء کی درخواستوں نے اس کے حق میں فیصلہ نہیں ہونے دیا۔

آخر میں: یہ کیس پاکستان کی عدلیہ کے نظام کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور عدالتیں ہر مقدمے کی سماعت کرنے میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں۔

اگر آپ کو اس کیس یا دیگر قانونی مسائل پر مزید معلومات چاہیے تو براہ کرم کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور ہمارے بلاگ کو فالو کریں۔

N THE SUPREME COURT OF PAKISTAN
(Appellate Jurisdiction)
Present:
Mr. Justice Irfan Saadat Khan
Mr. Justice Muhammad Shafi Siddiqui
Civil Petition No.473-K/2023
Against the judgment dated 27.01.2023 passed by High Court
of Sindh, Karachi in IInd Appeal No.132 of 2019
M Muhammad Feroz-ud-din Hilali
…Petitioner(s)
Versus
Nadir & others
…Respondent(s)
For the Petitioner(s):
Ch. A. Rasheed, ASC
For the Respondent(s):
Mr. Muhammad Aziz Khan, ASC
Mr. K.A. Wahab, AOR.
Date of Hearing:
25.03.2025
O R D E R
Muhammad Shafi Siddiqui, J.- A complaint under the provisions of
Illegal Dispossession Act, 2005 was filed by the petitioner/applicant
which was dismissed by the District Judge vide order dated 22.10.2010.
After the dismissal of the said application a suit bearing No.833 of 2016
was filed before the trial Court which was dismissed vide judgment dated
17.04.2017. The said judgment was then impugned by the petitioner/
plaintiff before the First Appellate Court in Civil Appeal No.84 of 2017
which appeal was also dismissed vide judgment dated 13.04.2019 and
consequently the petitioner filed Second Appeal under section 100 CPC
before High Court which too was dismissed on 27.01.2023.
2.
The two forums of different jurisdiction have concluded against the
petitioner i.e. the complaint under the provisions of Illegal Dispossession
Act, 2005 was dismissed by District Judge followed by the dismissal of
the suit on the original side along with First Appeal and Second Appeal
accordingly. 
Civil Petition No. 705-K/2022 
2
3.
At the very outset the scope of Section 100 CPC and that too 
against the concurrent findings of the original Civil Court and the first 
Appellate Court is limited. The argument of the counsel for the petitioner 
was that the provisions of Order XVII Rule 3 CPC were misapplied to 
decide the lis and per learned counsel the trial Court failed to record 
evidence of the petitioner. 
4.
The judgment of the Senior Civil Judge/trial Court was passed on 
17.04.2017 after dismissal of the adjournment application. The 
application was dismissed after recording the reasons that on the 
previous date (previous to the dismissal of last adjournment application) 
the petitioner also moved an adjournment application which was allowed 
as a last chance, despite availing earlier opportunities too. On the fateful 
date neither the petitioner being plaintiff in the suit nor his counsel 
appeared but an adjournment application was sent stating that the 
petitioner was suffering from fever. On the same day after dismissal of 
the adjournment application, the judgment was announced and the suit 
of the petitioner was dismissed being devoid of any evidence. In support 
of the pleadings the first and second Appellate Court formed a similar 
view as no indulgence was required. 
5.
Order XVII Rule 3 CPC is triggered when any party fails to produce 
evidence and the Court in that eventuality may, notwithstanding such 
default, proceed to decide the suit forthwith. The petitioner being 
aggrieved of such decision under order XVII Rule 3 CPC preferred an 
appeal but has not taken the ground that under the given circumstances 
Order XVII Rule 3 CPC was misapplied. 
6.
The solitary ground argued by the counsel for the petitioner was 
that after dismissal of the adjournment application on 17.04.2017 the 
side of the petitioner, being plaintiff in the suit, was not closed. We have 
perused the judgment of the trial Court and finds that indeed, by an order 
an adjournment application was dismissed but insofar as closure of the 
Civil Petition No. 705-K/2022
3
side for recording of evidence is concerned that was clarified in the
judgment. Besides, this was nowhere pleaded either in the first appeal or
in the second appeal, hence a new ground is not open for indulgence.
7.
We do not find this to be a cause to interfere with the concurrent
findings of three Courts below who have recorded the non-serious
attitude of the petitioner in recording the evidence on a number of
occasions, particularly when the petitioner has failed to point out if he
has categorically and specifically taken this ground before the two
appellate forums below. Consequently petition merits no consideration
and the same is accordingly dismissed and leave refused.
Judge
Judge
Announced in open Court on _____.03.2025.
Judge
Karachi
 “Not Approved for reporting

For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

The Importance of Clear Terms for Specific Performance: Muhammad Asif v. Ch. Muhammad Hanif Case






سپیسیفک پرفارمنس کے لیے معاہدے کی شرائط کا واضح ہونا ضروری: محمد آصف بمقابلہ چوہدری محمد حنیف کیس

پاکستان کے "سپیسیفک رلیف ایکٹ 1877" کے تحت، کسی بھی معاہدے کی مخصوص کارکردگی (Specific Performance) صرف اس صورت میں ممکن ہے جب معاہدے کی شرائط واضح اور معقول یقین کے ساتھ متعین کی گئی ہوں۔ اس اصول کو "محمد آصف بمقابلہ چوہدری محمد حنیف" (R.S.A. No. 69 of 2014) کے کیس میں اہمیت دی گئی ہے۔

کیس کا پس منظر
اس کیس میں، محمد آصف نے چوہدری محمد حنیف کے خلاف ایک درخواست دائر کی تھی جس میں وہ معاہدے کی مخصوص کارکردگی کا مطالبہ کر رہا تھا۔ تاہم، اس معاہدے میں جائیداد کی تفصیل واضح نہیں تھی اور نہ ہی اس کی حدود اور مقام کی نشاندہی کی گئی تھی۔ معاہدے میں صرف جائیداد کی خرید و فروخت کی شرائط تھیں، لیکن یہ تفصیل شامل نہیں کی گئی تھی کہ جائیداد کو کہاں سے اور کس طرح تقسیم یا منتقل کیا جائے۔

عدالتی فیصلہ
عدالت نے اس کیس میں فیصلہ دیا کہ جائیداد کی تفصیل اور حدود کا واضح نہ ہونا معاہدے کی مخصوص کارکردگی کے لیے ضروری ہے۔ عدالت نے کہا کہ معاہدے کی شرائط و ضوابط کو اس طرح بیان کیا جانا چاہیے کہ ان کی پہچان اور عملدرآمد میں کوئی مشکل نہ ہو۔ جائیداد کی حدود اور تفصیلات کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے، عدالت نے مخصوص کارکردگی کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا۔

کیس سے حاصل ہونے والے اسباق

  1. معاہدے کی واضحیت: کسی بھی معاہدے میں جائیداد کی تفصیل (میٹس اینڈ بانڈز) اور دیگر شرائط کو واضح طور پر بیان کرنا ضروری ہے۔
  2. سپیسیفک پرفارمنس کی درخواست: صرف اس صورت میں مخصوص کارکردگی کی درخواست منظور کی جا سکتی ہے جب معاہدے کی تمام شرائط اور ضوابط معقول یقین کے ساتھ موجود ہوں۔
  3. عدالتی پوزیشن: اگر معاہدے کی شرائط غیر واضح ہوں، تو عدالت اسے نافذ کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔

نتیجہ
محمد آصف بمقابلہ چوہدری محمد حنیف کیس اس بات کو واضح کرتا ہے کہ قانونی معاہدوں میں تفصیلات کا مکمل اور واضح ہونا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کیس کے ذریعے یہ سکھایا جاتا ہے کہ معاہدے میں موجود ہر شرط کی وضاحت نہ صرف فریقین کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے، بلکہ عدالت کو بھی معاہدے کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

اگر آپ بھی کسی معاہدے کی مخصوص کارکردگی کی درخواست دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو اس میں شامل تمام شرائط کو واضح اور مکمل طور پر بیان کرنا ضروری ہوگا۔


Section 21(c) of the Specific Relief Act, 1877 (the ‘Act’) does not permit to specifically enforce a contract the terms of which the Court cannot find with reasonable certainty. In Muhammad Miskeen case1 agreement not describing the property under sale by metes and bounds was refused to be enforced. It is settled that in order to succeed in a suit for specific performance of a contract, claimant has to assert a valid and enforceable contract existed between him and the other side beside clearly pleading the terms and conditions on the basis of which the contract was executed which he desired to be specifically performed.
R. S. A. No. 69 of 2014
Muhammad Asif versus Ch. Muhammad Hanif
2025 LHC 1367


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

"Application for Restoration and the Role of Article 181 of the Limitation Act: Legal Insights"







آرٹیکل 181 اور درخواستوں کی بحالی: قانونی نقطہ نظر

قانونی نظام میں درخواستوں کی بحالی کے حوالے سے مختلف پیچیدہ اور اہم پہلو ہیں، جنہیں سمجھنا ضروری ہے تاکہ وکلاء اور درخواست گزار صحیح طریقے سے اپنے حقوق کا دفاع کر سکیں۔ ایک اہم موضوع جس پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے، وہ ہے آرٹیکل 181 کا اطلاق اور اس کا قانون میں موجود درخواستوں کی بحالی کے حوالے سے کردار۔ 2022 CLC 2007 کیس میں اس موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے، جس میں درخواست کی بحالی اور لیمیٹیشن ایکٹ 1908 کے تحت مدتِ معیاد کا سوال اٹھایا گیا۔

1. آرٹیکل 181 کا مفہوم:

آرٹیکل 181 لیمیٹیشن ایکٹ 1908 کا ایک اہم جزو ہے، جو ان درخواستوں پر لاگو ہوتا ہے جن کے لیے مخصوص مدتِ معیاد کا ذکر نہ ہو۔ جب کسی قانونی کارروائی یا درخواست کے لیے قانون میں براہ راست کوئی مدتِ معیاد نہ ہو، تو آرٹیکل 181 کے تحت تین سال کی مدت دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی درخواست کے لیے مخصوص مدت کا تعین نہ کیا گیا ہو تو درخواست گزار کو درخواست دائر کرنے کے لیے تین سال کا وقت ملے گا۔

2. کیس کا پس منظر:

2022 CLC 2007 کیس میں، ایک درخواست گزار نے اپنی مرکزی اپیل کی بحالی کی درخواست دی تھی، جو عدم پیروی کی وجہ سے مسترد ہو گئی تھی۔ اس کے بعد درخواست گزار نے بحالی کی درخواست کو دوبارہ دائر کیا۔ تاہم، اس درخواست کو آرڈر 41 رول 19 کے تحت دائر سمجھا گیا تھا، جس کے لیے آرٹیکل 168 کے تحت 30 دن کی معیاد تھی۔ لیکن عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ یہ درخواست آرٹیکل 181 کے تحت دائر کی گئی تھی، کیونکہ اس پر کسی مخصوص مدتِ معیاد کا تعین نہیں تھا۔

3. سیکشن 151 CPC اور اس کا کردار:

کیس میں ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ درخواست گزار نے اپنی درخواست کو آرڈر 41 رول 19 کے تحت دائر کرنے کی کوشش کی تھی، جو کہ سیول پروسیجر کوڈ (CPC) کے مطابق ایک مخصوص طریقہ ہے۔ تاہم عدالت نے اسے سیکشن 151 CPC کے تحت دائر سمجھا، کیونکہ درخواست کی نوعیت ایسی تھی کہ اس پر کوئی مخصوص مدتِ معیاد لاگو نہیں ہوتی۔ سیکشن 151، عدالت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں انصاف کے تقاضوں کے مطابق اقدامات کرے، چاہے اس کے لیے کسی مخصوص قانون کی وضاحت نہ ہو۔

4. آرٹیکل 181 کا اطلاق:

کیس میں عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ آرٹیکل 168 کے تحت 30 دن کی مدت مخصوص تھی، لیکن اس درخواست پر آرٹیکل 181 کا اطلاق ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ درخواست گزار کو تین سال تک اپنی درخواست دائر کرنے کا وقت ملے گا۔ عدالت نے اس فیصلے میں اس بات کی وضاحت کی کہ جب کسی درخواست کے لیے کوئی مخصوص مدتِ معیاد نہ ہو، تو آرٹیکل 181 کے تحت تین سال کی مدت خود بخود لاگو ہو گی۔ اس فیصلے نے یہ بھی واضح کیا کہ درخواست گزار کو اپنی درخواست کو دائر کرنے کے لیے ایک معقول وقت ملتا ہے۔

5. ماتحت عدالت کا حکم اور اس کی قانونی حیثیت:

اس کیس میں ماتحت عدالت کا حکم غیر واضح اور غیر مدلل تھا، جس کی وجہ سے عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ عدالت نے اس بات کا اشارہ دیا کہ کسی بھی عدالت کا حکم واضح اور مدلل ہونا ضروری ہے۔ اگر حکم غیر واضح یا مبہم ہو تو وہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس فیصلے نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ عدالتوں کو اپنے فیصلوں میں ہر پہلو کو واضح طور پر بیان کرنا چاہیے تاکہ قانون کی تشریح میں کسی بھی قسم کا ابہام نہ ہو۔

6. لیمیٹیشن اور درخواستوں کی بحالی:

لیمیٹیشن ایک اہم قانونی پہلو ہے جو درخواستوں کے دائرے اور ان پر فیصلہ کرنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہر درخواست کی ایک مخصوص مدتِ معیاد ہوتی ہے جس کے اندر اس پر فیصلہ کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات، بعض درخواستیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے مدتِ معیاد کا تعین نہیں کیا جاتا، جیسے کہ آرٹیکل 181 میں بیان کیا گیا ہے۔ ان درخواستوں کے لیے تین سال کی مدت مقرر کی جاتی ہے۔

7. نتیجہ:

اس کیس نے یہ ثابت کیا کہ درخواستوں کی بحالی اور لیمیٹیشن کے حوالے سے قانونی اصولوں کی مکمل تفہیم ضروری ہے۔ جہاں تک درخواست کی بحالی کا تعلق ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ آرڈر 41 رول 19 CPC کے تحت ہو، بلکہ سیکشن 151 CPC کے تحت بھی دائر ہو سکتی ہے۔ اس کیس میں آرٹیکل 181 کے تحت تین سال کی معیاد کا اطلاق کیا گیا، جس نے درخواست گزار کو اپنی درخواست دوبارہ دائر کرنے کا موقع دیا۔

نتیجہ اخذ کرنا:

آرٹیکل 181 کے تحت تین سال کی مدت کا اطلاق اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اگر قانون میں کسی درخواست کے لیے مخصوص مدتِ معیاد نہ ہو، تو درخواست گزار کو تین سال تک وقت دیا جائے گا۔ یہ اصول درخواستوں کی بحالی کے عمل میں اہمیت رکھتا ہے اور درخواست گزار کو ان کے حقوق کا مؤثر طریقے سے دفاع کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔


2022 CLC 2007

An application for restoration of an earlier application for restoration of main appeal, both of which have been dismissed for non-prosecution, cannot be treated as an application under Order 41 rule 19 CPC, for which, limitation period of 30-days is provided under Article 168 of the Limitation Act, 1908 rather the said application, even if filed without mentioning any section, for all intents and purposes is an application under Section 151 CPC, for which, as limitation is not expressly provided under any article of the Limitation Act; hence, residuary Article 181 of the Limitation Act providing limitation of three years for filing the same, would be applicable. Impugned order being vague and non-speaking order cannot be sustained.


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Featured Post

Court marriage karne ka tareeka | court marriage process in Pakistan.

  What is the Court marriage meaning Court marriage typically refers to a legal union between two individuals that takes place in a co...