Translate

3/31/2025

"PT-1 Certificate in Pakistan: A Key Document for Property Tax Payment"






پاکستان میں PT-1 (پراپرٹی ٹیکس سرٹیفکیٹ) کا جائزہ

تعریف:
پاکستان میں PT-1 ایک اہم دستاویز ہے جو پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کے بعد جاری کی جاتی ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ پراپرٹی کی قانونی حیثیت اور اس پر عائد ٹیکس کی ادائیگی کی تصدیق کرتا ہے۔ PT-1 سرٹیفکیٹ کو عام طور پر پراپرٹی کے لین دین کے دوران استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب پراپرٹی خرید یا فروخت کی جاتی ہے، یا جب کسی قانونی تنازعہ میں جائیداد کے ریکارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔

پراپرٹی ٹیکس کا قانونی فریم ورک:
پاکستان میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی اور اس پر قانون سازی مختلف صوبوں کے تحت کی جاتی ہے۔ ہر صوبے کے ٹیکس قوانین میں کچھ فرق ہو سکتا ہے، مگر مجموعی طور پر پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے پاکستان کا قانونی فریم ورک کچھ اس طرح ہے:

1. پنجاب پروپرٹی ٹیکس آرڈیننس 2001:

پنجاب میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی اور اس پر قانون سازی کے لیے پنجاب پروپرٹی ٹیکس آرڈیننس 2001 موجود ہے۔ اس کے تحت جائیداد کی تخمینی قیمت پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔

  • سیکشن 7: پراپرٹی ٹیکس کی شرح اور اس کی وصولی کا طریقہ۔
  • سیکشن 11: پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کی تاریخ اور اس پر دیر سے ادائیگی کے لیے جرمانہ۔
  • سیکشن 12: PT-1 سرٹیفکیٹ کی درخواست اور جاری کرنے کا طریقہ۔

2. سندھ پروپرٹی ٹیکس ایکٹ 1958:

سندھ میں پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے سندھ پراپرٹی ٹیکس ایکٹ 1958 استعمال ہوتا ہے، جو جائیداد کے مالکان کو ہر سال پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کا پابند کرتا ہے۔

  • سیکشن 5: پراپرٹی ٹیکس کی شرح اور اس کی اصلاحات۔
  • سیکشن 10: پراپرٹی ٹیکس کی وصولی اور اس پر جرمانے کی تفصیلات۔
  • سیکشن 13: PT-1 سرٹیفکیٹ کی درخواست اور تصدیق کی تفصیلات۔

3. خیبر پختونخوا پراپرٹی ٹیکس آرڈیننس 2001:

خیبر پختونخوا میں پراپرٹی ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کی جاتی ہے۔

  • سیکشن 6: پراپرٹی ٹیکس کی شرحوں کی وضاحت۔
  • سیکشن 9: پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کی تاریخ اور تاخیر پر عائد جرمانے۔
  • سیکشن 14: PT-1 سرٹیفکیٹ کی درخواست دینے کا طریقہ اور اس کے اجرا کی شرائط۔

4. بلوچستان پراپرٹی ٹیکس ایکٹ 1962:

بلوچستان میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی بلوچستان پراپرٹی ٹیکس ایکٹ 1962 کے تحت کی جاتی ہے۔

  • سیکشن 4: پراپرٹی ٹیکس کی شرح۔
  • سیکشن 8: پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کی مدت اور فیسوں کی تفصیل۔
  • سیکشن 15: PT-1 سرٹیفکیٹ کی درخواست کا طریقہ کار۔

PT-1 سرٹیفکیٹ کی اہمیت:

PT-1 سرٹیفکیٹ پراپرٹی کی قانونی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ دستاویز ان افراد کے لیے اہم ہوتی ہے جو پراپرٹی خریدنا، بیچنا یا کسی قانونی تنازعے میں جائیداد کے ریکارڈ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ PT-1 سرٹیفکیٹ، پراپرٹی کے مالک کے طور پر آپ کی ذمہ داریوں اور حقوق کو ظاہر کرتا ہے۔

PT-1 سرٹیفکیٹ کی درخواست:

پاکستان میں مختلف صوبوں میں پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی کے بعد PT-1 سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو متعلقہ ایکسائز اور ٹیکسیشن دفتر میں درخواست دینی پڑتی ہے، جہاں پراپرٹی کی تفصیلات اور ٹیکس کی ادائیگی کی تصدیق کی جاتی ہے۔

نتیجہ:

پراپرٹی ٹیکس سرٹیفکیٹ (PT-1) پاکستان میں پراپرٹی مالکان کے لیے ایک ضروری دستاویز ہے، جو ٹیکس کی ادائیگی کی تصدیق کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ جائیداد کے لین دین، قانونی تنازعات اور دیگر امور میں ایک اہم ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ہر صوبے کے اپنے ٹیکس قوانین ہیں، اور ان کے تحت PT-1 سرٹیفکیٹ کی درخواست کا طریقہ کار اور شرائط مختلف ہو سکتی ہیں۔

اگر آپ کو اس کے حوالے سے مزید تفصیل چاہیے ہو، تو آپ اپنے متعلقہ صوبے کے ایکسائز اور ٹیکسیشن دفاتر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Sale Agreement Cannot Be Nullified Solely Due to Vendor Being a Villager Woman — Lahore High Court







دیہاتی خاتون ہونے کی بنیاد پر فروخت کا معاہدہ کالعدم نہیں ہو سکتا — لاہور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ محض فروخت کنندہ کے دیہاتی خاتون ہونے کی بنیاد پر فروخت کا معاہدہ کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ فیصلہ سول رویژن نمبر 24-25 میں سنایا جس کا عنوان "محمد رفیق بنام مسماۃ ثریا بی بی" تھا۔ یہ فیصلہ جسٹس انوار حسین نے 12 مارچ 2025 کو سنایا۔

کیس کا پس منظر

یہ مقدمہ زمین کی فروخت کے ایک معاہدے سے متعلق تھا جس میں درخواست گزار محمد رفیق نے مسماۃ ثریا بی بی سے زمین خریدی۔ فروخت کے معاہدے پر دو گواہوں کے دستخط موجود تھے، جنہوں نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر معاہدے کی توثیق کی۔

مدعیہ نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ چونکہ فروخت کنندہ ایک دیہاتی اور غیر تعلیم یافتہ خاتون ہے، اس لیے معاہدہ دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ معاہدہ ریونیو افسران کی ملی بھگت سے کروایا گیا ہے۔

عدالتی دلائل اور فیصلہ

عدالت نے شواہد اور گواہوں کے بیانات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ دونوں گواہوں نے واضح طور پر بیان دیا کہ فروخت کا معاہدہ مکمل طور پر رضا مندی کے ساتھ کیا گیا تھا اور اس میں کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی شامل نہیں تھی۔

عدالت نے قرار دیا کہ معاہدے کی صداقت کو چیلنج کرنے کے لیے صرف فروخت کنندہ کے دیہاتی یا غیر تعلیم یافتہ ہونے کا جواز کافی نہیں ہے۔ اگر معاہدے کی تصدیق کرنے والے گواہان موجود ہوں اور دھوکہ دہی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو تو معاہدے کو قانونی تسلیم کیا جائے گا۔

قانونی اہمیت

یہ فیصلہ اس اصول کو مضبوط کرتا ہے کہ قانونی معاہدے کو چیلنج کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیہاتی یا غیر تعلیم یافتہ ہونے کی بنیاد پر معاہدے کو مشکوک نہیں بنایا جا سکتا۔
یہ عدالتی نظیر نہ صرف زمین کے تنازعات بلکہ دیگر معاہداتی مقدمات کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

نتیجہ

لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ انصاف کی فراہمی اور قانونی اصولوں کی پاسداری کی عمدہ مثال ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے جو دیہاتی یا غیر تعلیم یافتہ افراد کی سادگی کا فائدہ اٹھا کر معاہدے کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
عدالت نے اس فیصلے سے واضح کیا کہ قانون کے اصول سب کے لیے برابر ہیں اور کسی کی حیثیت یا تعلیمی پس منظر کی بنیاد پر انصاف کے تقاضے تبدیل نہیں ہو سکتے۔


The core question that requires adjudication is whether the fact that the vendor-respondent is a villager lady alone can be a ground for upending the sale transaction, when both the marginal witnesses have appeared and corroborated the stance of the purchaser?petitioner, and no connivance of the revenue officials concerned could be established? Held that in presence of overwhelming evidence supporting the validity of the transaction and in absence of any substantiated claim of fraud, the fact that the vendor is a villager lady alone cannot be made a ground for disputing the sale transaction.

Civil Revision-24-25
MUHAMMAD RAFIQUE VS
MST. SURIYA BIBI
Mr. Justice Anwaar Hussain
12-03-2025
2025 LHC 1180


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Legal Consequences of Crimes Committed Abroad by Pakistani Citizens






بیرونِ ملک جرم اور پاکستان میں قانونی کارروائی

جرم کا ارتکاب چاہے پاکستان میں ہو یا بیرونِ ملک، اگر مجرم پاکستانی شہری ہے تو اسے پاکستانی عدالتوں میں بھی مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی اصول کے تحت لاہور ہائی کورٹ نے حالیہ کیس "محمد ارشاد بنام ریاست" (2025 LHC 1359) میں اہم فیصلہ سنایا۔

پس منظر:

محمد ارشاد عمان (مسقط) میں ایک کمپنی کا ملازم تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے کمپنی کے دیے گئے نقدی، ہیرے کی انگوٹھی اور بینک کارڈ امانت میں خیانت کرتے ہوئے اپنے ذاتی استعمال کے لیے ہتھیا لیے۔ جرم کے بعد، اس نے بڑی رقم پاکستان میں اپنے اور اپنی بیوی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کر دی۔

قانونی تجزیہ:

1. سیکشن 3 پاکستان پینل کوڈ (PPC) کے تحت، اگر کوئی پاکستانی شہری بیرونِ ملک کوئی ایسا جرم کرتا ہے جو پاکستان میں بھی جرم ہے، تو اس پر پاکستان میں بھی مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔


2. سیکشن 188 کریمنل پروسیجر کوڈ (CrPC) کے مطابق، بیرونِ ملک جرم کی ایف آئی آر پاکستان میں درج کی جا سکتی ہے۔


3. سیکشن 403 CrPC دوہری سزا کے اصول پر مبنی ہے، یعنی اگر کسی کو کسی جرم میں سزا یا بریت مل چکی ہو تو دوبارہ مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ لیکن یہاں ایسا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا۔



عدالتی فیصلہ:

عدالت نے تسلیم کیا کہ:

محمد ارشاد نے امانت میں خیانت کی اور مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا۔

رقم کی پاکستان منتقلی نے جرم کو مزید تقویت دی۔

چونکہ جرم کے عناصر پاکستان پینل کوڈ کے تحت بھی پورے ہوتے ہیں، لہٰذا مقدمہ پاکستان میں چلایا جا سکتا ہے۔


نتیجہ:

یہ فیصلہ اس اصول کو واضح کرتا ہے کہ اگر پاکستانی شہری بیرونِ ملک جرم کرتا ہے، تو بھی پاکستان کی عدالتیں اسے انصاف کے کٹہرے میں لا سکتی ہیں۔ امانت میں خیانت جیسے جرائم میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قانونی پہلو بھی مدنظر رکھے جاتے ہیں۔
یہ فیصلہ انصاف کی بالادستی اور مجرموں کے احتساب کے حوالے سے ایک مضبوط پیغام ہے کہ جرم کہیں بھی ہو، قانون سے بچنا ممکن نہیں۔
Combined study and critical analysis of S.3 PPC, 188 and 403 CrPC leads to an inference that if a person commits any offence in a foreign country, which is also an offence under the Pakistan Penal Code, he may be tried or convicted in Pakistan in the same manner as if the offence was committed within Pakistan.

Section 188 of Cr.P.C. does not create any bar to the registration of a crime report under section 154 of Cr.P.C. in Pakistan for an offence committed by a citizen of Pakistan abroad.

So far as Section 403 of Cr.P.C. is concerned, the protection available there under can be claimed by an accused only if he has been tried for a crime by a court of competent jurisdiction and he is thereafter convicted or acquitted of the charge and that conviction/acquittal remains intact.

Record speaks that when petitioner committed embezzlement in Masqat/Oman, he immediately transferred certain amounts into his bank account at Pakistan and bank account of his wife. Petitioner, being an employee of complainant was entrusted with cash, diamond ring and bank card, which he misappropriated and converted the same to his own use in flagrant violation of his duties as an employee. He breached the trust of his employer/complainant. Ingredients of offence of criminal breach of trust prescribed in section 405 of PPC were fully attracted.
Crl. Misc. No.7151-B/2025.
Muhammad Irshad Vs State
2025 LHC 1359

For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Protective Bail: Legal Safeguard Against Arrest

 



 پروٹیکٹو
 ضمانت بیرون ملک سے نہیں بلکہ پاکستان کے ہائی کورٹ سے حاصل کی جاتی ہے۔

پروٹیکٹو ضمانت (Protective Bail)

پروٹیکٹو ضمانت ایک قانونی سہولت ہے جو کسی شخص کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب اس کے خلاف کسی دوسرے شہر میں ایف آئی آر درج ہو جائے اور اسے گرفتاری کا خطرہ ہو۔ یہ ضمانت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ملزم کو موقع ملے کہ وہ متعلقہ عدالت تک بغیر گرفتاری پہنچ سکے اور وہاں اپنی عبوری ضمانت کے لیے درخواست دے سکے۔


پروٹیکٹو ضمانت حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

اگر آپ کسی دوسرے شہر میں موجود ہیں اور آپ کے خلاف کسی اور شہر میں ایف آئی آر درج ہو جائے تو درج ذیل خدشات پیدا ہو سکتے ہیں:

  1. راستے میں گرفتاری: اگر آپ ایف آئی آر والے شہر پہنچنے سے پہلے راستے میں گرفتار ہو جائیں تو آپ اپنی عبوری ضمانت حاصل نہیں کر سکیں گے۔
  2. ایف آئی آر والے شہر میں گرفتاری: ایف آئی آر والے شہر میں پہنچنے پر پولیس آپ کو گرفتار کر سکتی ہے، جس کے بعد ضمانت کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

پروٹیکٹو ضمانت کیسے حاصل کی جائے؟

  1. ہائی کورٹ میں درخواست: پروٹیکٹو ضمانت کے لیے درخواست صرف پاکستان کے  ہائی کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے۔
  2. درخواست میں حقائق کی وضاحت: درخواست میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ملزم کو گرفتاری کا خطرہ ہے اور وہ بغیر گرفتاری کے متعلقہ عدالت تک پہنچنا چاہتا ہے۔
  3. عدالتی احکامات: عدالت پروٹیکٹو ضمانت جاری کرتی ہے، جو عام طور پر ایک مخصوص مدت کے لیے ہوتی ہے تاکہ ملزم ایف آئی آر والے شہر پہنچ کر عبوری ضمانت کے لیے درخواست دے سکے۔

پروٹیکٹو ضمانت کے فوائد

  • گرفتاری سے تحفظ: پروٹیکٹو ضمانت کے دوران پولیس گرفتاری نہیں کر سکتی۔
  • عبوری ضمانت کے حصول میں آسانی: ملزم کو موقع ملتا ہے کہ وہ بلا خوف عدالت پہنچ کر عبوری ضمانت کے لیے درخواست دے۔
  • عدالتی تحفظ: عدالت کی ہدایات کی روشنی میں پولیس ملزم کو غیر قانونی طور پر گرفتار نہیں کر سکتی۔

عبوری ضمانت کے لیے کیا کرنا ہوگا؟

پروٹیکٹو ضمانت حاصل کرنے کے بعد ملزم کو جلد از جلد ایف آئی آر والے شہر کی متعلقہ عدالت میں عبوری ضمانت کے لیے درخواست دائر کرنی چاہیے۔ عبوری ضمانت کے دوران ملزم کو عدالت کی شرائط پر عمل کرنا ہوگا اور تفتیش میں تعاون کرنا ہوگا۔


خلاصہ

پروٹیکٹو ضمانت ایک قانونی سہولت ہے جو ہائی کورٹ سے حاصل کی جاتی ہے اور اس کا مقصد ملزم کو عدالت تک پہنچنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ ضمانت گرفتاری کے خوف کو کم کرتی ہے اور ملزم کو موقع دیتی ہے کہ وہ اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کرے۔


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

3/30/2025

"Right to Testify via Video Link – Important Judicial Decision"




کیس کی کہانی:

یہ کیس شاہ آغا بنام ریاست (2025 P Cr. L J 523) کے عنوان سے پشاور ہائی کورٹ (ایبٹ آباد بینچ) میں پیش ہوا۔ جسٹس محمد اعجاز خان نے اس کیس کی سماعت کی۔

پس منظر:

شاہ آغا کے خلاف ایک مقدمہ درج ہوا، جس میں شکایت کنندہ شاہد ہارون تھے، جو جرمنی میں مقیم تھے۔ شکایت کنندہ کا بیان مقدمے میں اہمیت کا حامل تھا، لیکن ان کی بیرون ملک موجودگی کی وجہ سے وہ عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتے تھے۔

درخواست:

شاہ آغا نے عدالت سے درخواست کی کہ شاہد ہارون کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے تاکہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔

ٹرائل کورٹ کا فیصلہ:

ٹرائل کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی، اور کہا کہ گواہ کی غیر حاضری میں ویڈیو لنک کے ذریعے بیان لینا مناسب نہیں۔

ہائی کورٹ میں اپیل:

ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف شاہ آغا نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔

ہائی کورٹ کا فیصلہ:

ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ قانون شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت ویڈیو لنک کے ذریعے گواہی لینا جائز ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ گواہ شاہد ہارون کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے، لیکن بیان سے پہلے گواہ کی شناخت کی تصدیق ضروری ہوگی۔

اعتراض اور جواب:

ملزم نے یہ اعتراض کیا کہ گواہ کی شناخت کیسے یقینی بنائی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ اگر ملزم کو اس سے کوئی حقیقی نقصان نہ ہو رہا ہو تو یہ اعتراض قابل قبول نہیں۔

اہم پیغام:

اس فیصلے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ جدید ٹیکنالوجی کو انصاف کی فراہمی میں شامل کرنے پر زور دے رہی ہے۔ بیرون ملک مقیم گواہوں کے بیانات کے لیے ویڈیو لنک کا استعمال وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اگر کوئی کلائنٹ عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتا تو اس کیس کا حوالہ دے کر ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرایا جا سکتا ہے۔


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Compromise in Cheque Dishonoring Cases: A Landmark Decision by Lahore High Court






چیک ڈس آنرنگ اور راضی نامہ: لاہور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ

چیک ڈس آنرنگ (چیک باؤنس) کے مقدمات میں راضی نامہ کی اہمیت اور قانونی حیثیت ہمیشہ سے ایک پیچیدہ مسئلہ رہی ہے۔ حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک اہم فیصلے (PLD 2020 Lahore 97) نے اس معاملے میں واضح رہنمائی فراہم کی ہے۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے اپنے فیصلے میں دفعہ 489-F، تعزیرات پاکستان کے تحت ضمانت کے مراحل (قبل از گرفتاری اور بعد از گرفتاری) میں راضی نامہ کی شرائط اور ضوابط کو جامع انداز میں بیان کیا ہے۔

راضی نامہ کی قانونی حیثیت:

عدالت نے قرار دیا کہ راضی نامہ صرف اسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب وہ تحریری اور دونوں فریقین کے دستخط یا انگوٹھے کے نشانات کے ساتھ مکمل ہو۔ اگر رقم کی ادائیگی کسی مجاز شخص کے ذریعے ہو رہی ہے تو اس کی تصدیق بھی ضروری ہے۔

ضمانت کے مراحل اور راضی نامہ:

اگر ملزم جیل میں ہو تو بعد از گرفتاری ضمانت کے دوران ملزم کے وکیل یا نامزد کردہ شخص کا بیان بھی قلمبند کیا جائے گا۔ عدالت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ ضمانت کی رعایت اسی صورت میں برقرار رہے گی جب ملزم راضی نامہ کی شرائط پر مکمل عمل کرے گا۔

ادائیگی کی پابندی اور رعایت:

عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ملزم کو راضی نامہ کے مطابق طے شدہ رقم یا قسطیں مقررہ تاریخ تک ادا کرنی ہوں گی۔ اگر کسی ہنگامی صورت میں تین دن کی مہلت درکار ہو تو وہ بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر رقم ادا نہ کی گئی تو ضمانت کی رعایت خود بخود منسوخ تصور ہوگی، اور مدعی کو دوبارہ درخواست دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

راضی نامہ کی خلاف ورزی اور قانونی نتائج:

اگر ملزم راضی نامہ کی شرائط پوری نہ کرے تو یہ ضمانت کا غلط استعمال تصور ہوگا۔ ایسی صورت میں مدعی ٹرائل کورٹ میں متفرق درخواست دائر کرکے ملزم کی دوبارہ گرفتاری کی درخواست کر سکتا ہے۔

مقدمے کے اختتام کا طریقہ:

اگر عدالت کو یقین ہو جائے کہ راضی نامہ کی تمام شرائط پوری ہو چکی ہیں، تو وہ مقدمے کو ختم کرنے کا حکم دے سکتی ہے، چاہے یہ درخواست پر ہو یا عدالت کی اپنی کارروائی پر۔

نتیجہ:

لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے چیک ڈس آنرنگ کے مقدمات میں راضی نامہ کی حیثیت کو قانونی طور پر مضبوط بنا دیا ہے۔ اب عدالتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ضمانت نامے میں راضی نامہ کی تمام شرائط کو واضح کریں اور ملزم کی طرف سے راضی نامہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ضمانت خود بخود منسوخ تصور ہو۔
یہ فیصلہ نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ کاروباری طبقے کے لیے بھی اہم ہے، جو چیک کے لین دین کے دوران ممکنہ قانونی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

جعلی چیک دینے کے بعد راضی نامہ ۔
تازہ ترین عدالتی فیصلہ
Compromise Deed - راضی نامہ کی شرائط
Dishonring of cheque - Grant of pre or post arrest Bail.
It was held in Salman Khalid vs. The State etc. reported in PLD 2020 Lahore 97, decided by Anwaar-ul-Haq Pannun, Judge, that -
High Court provided guidelines for proceeding with cases u/s 489-F, PPC, involving compromise at Precompliance of its terms and conditions will amount to breach of commitment and misuse of concession of Bail by the accused for the period he enjoy the said concession in the form of liberty instead of facing the rigors of jail.
مدعی ضمانت منسوخی کی بجائے ٹرائل کورٹ کو متفرق درخواست دے کہ راضی نامہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے،اور ٹرائل کورٹ ملزم کو دوبارہ گرفتارکرواسکتی ہے۔
(vii) The complainant shall not be obliged to file a formal application for cancellation of Bail u/s 497(5) CrPC either before the trial Court or before any higher Court which had passed the Bail granting order. However, the complainant, in case of default in making payment by the accused, may file only a miscellaneous application before the trial Court inviting its attention towards the default made by the accused, thereupon, learned trial Court shall pass an order for committing the accused to custody.
یہ راضی نامہ کی ایک علیحدہ قسم کے طور پرٹرائل کورٹ ریکارڈ مرتب کرے۔
(viii) All the trial Courts seized with the trial/ proceedings for the offence u/s 489-F, PPC, shall prepare a separate category of compromise cases with some special identity so that the case may be dealt with, in terms of Bail granting order.
اگرراضی نامہ پر موثر عمل ہوتاہے، تو کاروائی مقدمہ اختتام کوپہنچ سکتی ہے۔ایسا عدالت درخواست پربھی کرسکتی ہے، اور ازخود کاروائی پربھی ایسا قدم اُٹھاسکتی ہے۔
(ix) In case, the trial Court, is satisfied that the terms of the compromise have been fulfilled and acted upon, the Court, on its own motion or on the application of either party shall give effect to the compromise, by way of termination of proceedings in the case. (As received ) .


For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

3/29/2025

Workplace Harassment Allegations: The Need for Solid Evidence





کام کی جگہ پر ہراسگی کے الزامات: ٹھوس ثبوت کی ضرورت

خواتین کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کا مقصد خواتین کو کام کی جگہ پر محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے۔ پاکستان میں "تحفظ خواتین ہراسگی برائے ملازمت گاہ ایکٹ 2010" اسی مقصد کے تحت نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم، بعض اوقات ہراسگی کے الزامات میں ایسے پیچیدہ معاملات سامنے آتے ہیں جو نہ صرف قانون بلکہ انصاف کے تقاضوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

ایک اہم عدالتی فیصلہ

"P L D 2021 Lahore 598" کے عنوان سے لاہور ہائی کورٹ کا ایک اہم فیصلہ سامنے آیا جس میں ہراسگی کے الزامات کی نوعیت اور ثبوت کے معیار پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ کیس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک خاتون ملازم نے اپنے ساتھی پر جنسی ہراسگی کا الزام لگایا۔ خاتون نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے ناپسندیدہ جنسی رویہ اپنایا اور توہین آمیز باتیں کیں۔

ثبوت کا معیار اور عدالتی مشاہدہ

عدالت نے قرار دیا کہ جنسی ہراسگی کا الزام ایک جزوی مجرمانہ نوعیت کا معاملہ ہے، جس کے لیے ٹھوس، غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد ثبوت درکار ہوتے ہیں۔
کیس کے دوران، خاتون نے الزام کو ثابت کرنے کے لیے کچھ گواہ پیش کیے، لیکن گواہوں کی شہادت نہ صرف غیر واضح تھی بلکہ کئی گواہوں نے الزام کی تائید بھی نہیں کی۔

عدالت کا فیصلہ

عدالت نے کہا کہ محض الزام کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر جب ثبوت ناقص اور غیر معتبر ہوں۔ عدالت نے ملزم کو تمام الزامات سے بری کر دیا اور مشاہدہ کیا کہ شکایت کے بعد ملزم نے شدید سماجی اور ذہنی اذیت کا سامنا کیا، جو ایک انتباہ کے طور پر کافی ہے۔

سبق اور نتیجہ

یہ فیصلہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہراسگی کے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس اور معقول ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ محض الزامات کی بنا پر کسی کی زندگی اور کیریئر کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ بے شک اہم ہے، لیکن انصاف کے تقاضے بھی پورے ہونے چاہئیں۔

اختتامی کلمات

کام کی جگہ پر ہراسگی کے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہر الزام کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیق ہو۔ قانون کا مقصد نہ صرف مظلوم کو انصاف فراہم کرنا ہے بلکہ جھوٹے الزامات سے بے گناہ افراد کی حفاظت بھی ہے۔ ہمیں ایسے معاملات میں توازن برقرار رکھتے ہوئے انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

P L D 2021 Lahore 598

Protection against Harassment of Women at the Workplace Act (IV of 2010)---

----S. 2(h)---"Harassment"---Scope and effect---Charge of harassment at workplace, in particular, involving allegation of unwelcome sexual advance and sexually demeaning attitudes entailed serious consequences for the accused person, affecting person's life, career and social relationships--- Equally, such deviant behaviour violated social norms, discouraged participation of womenfolk in economic activity and often led to disastrous consequences, hence, called for accountability and strict action.

Protection against Harassment of Women at the Workplace Act (IV of 2010)---
----S. 2(h)---"Harassment"---Proof---Quasi-criminal charge of sexual harassment, as a bare minimum, had to be impartial, credible, capable of surviving test of reasonableness and must be reinforced with convincing / independent evidence.

   Quasi-criminal charge of sexual harassment, as a bare minimum, had to be impartial, credible, capable of surviving test of reasonableness and must be reinforced with convincing / independent evidence. In the present case, the complainant-petitioner failed to substantiate charge of harassment through independent, convincing and definite evidence. The testimony of the witnesses - claimed as hostile - extended no support to the case of the petitioner, when their assertions otherwise did not bring home the charge of harassment. Accused could not be punished merely on unsubstantiated assertions.  

   Furthermore, multifariousness of the allegations, mostly manifesting grievances regarding administrative failures, compromised the credibility, seriousness and efficacy of the charges levelled by the petitioner, which fact was evident from perusal of the complaint. Representation filed by the accused before the Governor was rightly allowed where after he was absolved of all charges levelled against him.  

   High Court observed that since the filing of the complaint, the accused had faced much discomfiture and social disgrace, which constituted sufficient warning, and it was expected that the complainant would demonstrate good and decent behaviour towards colleagues and co-workers. Constitutional petition was dismissed.

For more information call us 0092-324-4010279 Whatsapp Dear readers if u like this post plz comments and follow us. Thanks for reading .as you know our goal is to aware people of their rights and how can get their rights. we will answer every question, so we need your help to achieve our goal. plz tell people about this blog and subscribe to our youtube channel and follow us at the end of this post.

Featured Post

Court marriage karne ka tareeka | court marriage process in Pakistan.

  What is the Court marriage meaning Court marriage typically refers to a legal union between two individuals that takes place in a co...